Book Name:Akhirat Ki Tyari Ka Andaz Kasay Hona Chahiya

عبادت میں مشغول ہو جائے گا۔اللہ والے پوری زندگی فکرِ آخرت میں گزار دیتے تھے،اس لیے کہ وہ کثرت سے موت کو یادکرتے تھے اور انہیں موت زندگی سے زیادہ عزیز ہوتی تھی۔

موت زندگی سے محبوب

       مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”احیاء العلوم مترجم“ جلد 5 صفحہ 476 پر ہے کہ جب حضرت سَیِّدُناحذیفہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ  کی وفات کا وقت قریب آیا توا ٓپ نے فرمایا: اے اللہ پاک! تجھے معلوم ہے کہ میں نے اپنی مالداری سے زیادہ غربت(Poverty) کو محبوب رکھا ہے، میں نے اپنی صحت سے زیادہ بیماری کو پسند کیا ہے اور میں نےزندگی سے زیادہ موت کو محبوب رکھا ہے،لہٰذا تُو مجھ پر موت آسان کر دے تاکہ تجھ سے ملاقات کرسکوں۔   

روح نہ کیوں ہو مضطرب موت کے انتظار میں

سنتا ہوں مجھ کو دیکھنے آئیں گے وہ مزار میں

(دیوانِ سالک،ص۲۲)

اگر ہم اللہ والوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ یہ بات کبھی نہ بُھولتے تھے کہ ہم نے یہ دنیا چھوڑ کر چلے جانا ہے، اِنہیں یہ ہمیشہ یاد رہتا کہ ہم اس دنیا میں مسافر کی طرح ہیں، اس لیے وہ فکرِ آخرت میں مبتلا رہتے اور دنیا کی طرف بالکل بھی توجہ نہ کرتے۔

زبردست امام، معمولی کپڑوں میں!

       چنانچہ منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک بار مکہ معظمہ میں   تشریف فرما تھے۔امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ظاہری شان و شوکت سے بے نیازتھے،اس لئے آپ نہایت سادہ