Book Name:Auliya-e-Kiraam Kay Pakeeza Ausaaf

السَّلَامکی میراث ہے، علمِ دینقربتِ الٰہی کا راستہ ہے، علمِ دین ہدایت کا سرچشمہ ہے، علمِ دین گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے، علمِ دین خوفِ خدا کو بیدار کرنے کا نسخہ ہے، علمِ دین دنیا وآخرت کی عزت پانے کا سبب ہے، علمِ دین مُردہ دلوں کی حیات(Life) ہے، علمِ دین ایمان کی سلامتی کا محافظ ہے، علمِ دین خَلقِ خدا کی محبت پانے کا سبب ہے۔ اَلْغَرَض! علمِ دین بے شمار خوبیوں کا جامع ہے، علمِ دین میں دین بھی ہے ، علمِ دین میں دنیا بھی ہے، علمِ دین میں سکون بھی ہے ، علمِ دین میں اطمینان بھی ہے، علمِ دین میں لذت بھی ہے ، علمِ دین میں آرام بھی ہے،  لہٰذا عقل مند وہی ہے جو  علمِ دین میں مشغول ہوکر دنیا کے ساتھ نجاتِ آخرت کی بہتری  کابھی سامان کر جائے۔

       افسوس!ہمارے معاشرے کی اکثریت نہ تو خود عِلْمِ دِین  سیکھنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی اولاد کو عِلْمِ دِین سکھاتی ہے۔ اپنے ہونہار بچوں کو دنیاوی علوم وفنون تو خوب سکھائے جاتے ہیں مگر سنتیں سکھانے کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ۔ یہ خواہش تو کی جاتی ہے کہ میرا بیٹا ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور کمپیوٹر پروگرامر بنے مگر اپنی اولاد کو عالمِ دین، مفتیِ اسلام اور شیخ الحدیث  بنانے کی سوچ ختم ہوتی جا رہی ہے۔

اسلاف کا شوقِ علم دین

       عِلْمِ دِین ایک ایسی انمول دولت ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ خود بھی اس دولت کو پانے کی کوشش کرتے اور اپنی اولاد کو بھی عِلْمِ دِین کی تعلیم دلواتے،آئیے اس پر کچھ واقعات سنتی  ہیں:

چنانچہ، ایک باربادشاہِ وقت خلیفہ ہارون رشید نے (اپنے بیٹے)مامون رشید کی تعلیم کے لئے حضرتِ امام کسائی (رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ) سے عرض کِیا تو آپ نے فرمایا :”میں یہاں پڑھانے نہ آؤں گا ، شہزادہ میرے ہی مکان