Book Name:Auliya-e-Kiraam Kay Pakeeza Ausaaf

پر آجایا کرے۔“ہارون رشید نے عرض کی :”وہ وہیں حاضر ہوجایا کرے گا مگر اس کا سبق پہلے ہو۔“فرمایا :”یہ بھی نہ ہوگا بلکہ جو پہلے آئے گا اس کا سبق پہلے ہوگا۔“غرض مامون رشید نے پڑھنا شروع کیا،اتفاقاً ایک روز ہارون رشید کا گزر ہوا، دیکھا کہ امام کسائی (رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ) اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور مامون رشید پانی ڈالتا ہے۔ بادشاہ غضب ناک ہوکر اترا اور مامون رشید کو کوڑا  مارکرکہا:”او بے ادب! خدا نے دو ہاتھ کس لئے دئیے ہیں؟ایک ہاتھ سے پانی ڈال اور دوسرے ہاتھ سے اِن کا پاؤں دھو۔“( ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص ۱۴۴)

            میٹھی میٹھی ا سلامی بہنو!اس واقعہ سے جہاں استاذ کے بےحد ادب و تعظیم کرنے کا درس ملا ساتھ یہ بھی مَعْلُوم  ہواخلیفہ ہارون رشید کی اپنے اولاد کو عِلْمِ دِین سکھانے کی دلی خواہش تھی جبھی اس نے حضرتِ امام کسائی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  سے اپنے بیٹے کو پڑھانے کی التجا (Request) کی اور اس سلسلے میں امام کسائی کی تمام شرطیں بھی قبول کیں ۔

اسی طرح اَمِیْرُالمؤمنین حَضرتِ سَیِّدُناعمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ   نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا نہایت عمدہ انتظام کیا، جلیل القدر محدث حضرتِ سَیِّدُناصالح بن کیسان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ   جو خود ان کے بھی استاذ تھے انہیں اپنی اولاد کا اتالیق (نگران استاذ) مقرر فرمایا۔(از عمر بن عبد العزیز کی 425 حکایات، ص ۵۵)

اس طرح ہمارے اسلاف بھی بچپن ہی سے علمِ دین کی تحصیل میں مصروف ہو جایا کرتے تھے۔ منقول ہے کہ حُجّۃ الاِسلام حَضْرتِ سَیِّدُنا امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  کے والدِ محترم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خود اگرچہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو علمِ دین کی اَہَمیَّت کا بہت احساس تھا،جبھی آپ  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی دلی خواہش تھی کہ اُن کے دونوں صاحبزادگان محمد غزالی اور احمد غزالی رَحِمَہُمَا اللہ زیورِ علمِ شریعت و طریقت سے آراستہ ہوں ۔ اسی مقصد کےلیے انہوں نے اپنے صاحبزادگان کےلیے کچھ اثاثہ بھی بچایاجو ان کے انتقال پر ان دونوں سعادت مند بیٹوں کے حصولِ علم اور سفرِ تکمیلِ علم میں بہت کام آیا۔(مقدمۂ احیاءالعلوم