Book Name:Sayyiduna Zakariyya kay Waqiat aur Sayyidah Maryam ki Shan-o-Azmat

کَرخی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مرید اور حضرت سَیِّدُنا جنید بغدادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  کے اُستاد اور ماموں تھے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پہلے پہل سَقَطیعنی معمولی اور چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے تھے۔اسی مناسَبت سے آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو”سَقَطِی“کہا جاتا ہے(یعنی وہ شخص جو سامان کو ٹوکری میں رکھ کر بیچتا ہے)۔ منقول ہے: آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مال خریدتے اور بیچتے تھے اورہر دس(10)دینار کے مال پر صرف آدھا دینار فائدہ لیتےتھے ، اس سے زیادہ اگر کوئی دیتا بھی تو نہیں لیتے تھے۔ (تذکرۃ الاولیاء، جزء۱،ص۲۴۶)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ان کی شخصیت میں خیر خواہی کی خوبی بہت واضح نظر آتی ہے،جبکہ آج معاملہ اس کےالٹ ہے،مثلاًاگر کوئی پیشہ اختیار کرنےکےارادے سے کسی سے مدد طلب کرنے آئے تو دوسرا شخص اپنے پیشے کے متعلق معلومات دینےمیں کنجوسی سے کام لیتا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں دھوکہ دہی اتنی عام ہوچکی ہے کہ کسی کے ساتھ لین دین کا معاملہ کرنے اور اپنی رقم لگانے(Invest کرنے)سے ڈر ہی لگتا ہے۔ اس  بے اعتمادی کی بڑی وجہ خود اس کے  ماضی کے تجربات یا مشاہدات ہوتے ہیں۔ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آیا تھا جس میں آدمی بازار میں داخل ہو کر(بازار والوں سے) پوچھتا تھا:تمہارے خیال میں مجھے کس کے ساتھ معاملہ کرنا چاہئے؟تواس سے کہا جاتا: جس سے چاہو معاملہ کرلو۔پھر وہ زمانہ آیا جس میں یہ جواب ملتاتھا:جس سے چاہو معاملہ کرلو مگر فلاں فلاں شخص سے نہ کرنا،اس کے بعد وہ زمانہ  بھی آیاجس میں کہا جاتا:فلاں فلاں شخص کےعلاوہ کسی سے معاملہ نہ کرنا اور اب میں ایسے زمانے کے آنے سے ڈرتا ہوں جس میں یہ لوگ بھی  رخصت ہوجائیں۔‘‘اس فرمان کو ذکر کرنے کے بعدحضرت سَیِّدُنا امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: جس چیز کے ہونے  کا ان بزرگ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کو ڈر تھا گویا اب وہ ہوچکی ہے(یعنی اب ایسے لوگ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔) (احیاء العلوم،