Book Name:Imdaad-e-Mustafa Kay Waqeaat

ذرا غورکیجئے !وہ معینِ حقیقی و مددگارِ عالم  اللہ  پاک  خود فرما رہا ہے کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو۔  تو اگر اللہ کریم  کے علاوہ مدد مانگنا ناجائز ہوتا تو اللہپاک یہ حکم کیوں اِرْشاد فرماتا  کہ صبر اور نماز سےمدد چاہو! کیونکہ صبر اور نماز خدا نہیں ہیں بلکہ غیرِ خدا ہیں۔اسی طرح  پارہ 5سُوْرَۃُ النِّسَاء کی آیت نمبر 64 میں ارشاد ہوتاہے :

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پارہ: ۵، النسآء: ۶۴)

تَرْجَمَۂ کنزالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں  تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہسے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ  کو بہت توبہ قَبول کرنے والا مہربان پائیں۔

اِمامِ اَہلسنّت،اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہاس آیت کےتحت اِرْشادفرماتے ہیں:کیا اللہ  پاک  (اپنے مَحبُوب کی اُمَّت کے گناہوں کو)اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا۔ پھریہ کیوں فرمایاکہ اےنبی! تیرے پاس حاضرہوں اورتُو اللہ  (پاک )سے ان کی بخشش چاہے تو یہ (توبہ جیسی)دولت ونعمت پائیں گے۔( رَبِّ  کریم کا گناہگاروں کو درِ مُصْطَفٰے پہ حاضری کا حکم دینا اور وہاں رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا سفارشی بنوانا یہی غَیْرُاللہ سے مدد مانگنا ہے اور) یہی ہمارا مطلب ہے۔ جو قرآن کی آیت صاف فرمارہی ہے۔(فتاویٰ رضویہ: ۲۱/۳۰۵)

خود انبیائے کرام نے بھی اللہپاک کے سِوا  غیروں سے مدد مانگی  ہے اور خود قرآنِ پاک میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔ جیساکہ حضرت سَیِّدُنا عیسیٰ رُوْحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے حَواریوں سے مدد طلب فرمائی چنانچہ پارہ 28، سُوْرَۃُ الصَّف، آیت نمبر14میں ارشاد ہوتا ہے :

قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ

تَرْجَمَۂ کنز الایمان :عیسٰی بن مریم نے حواریوں سے