Book Name:Imam Malik ka ishq e Rasool

کا جذبہ گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ٹھنڈا ہوتاجارہا ہے۔اگر ہم نیک اعمال کر بھی لیں تو دوسری اسلامی بہنوں کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے  میں سستی کا شکار ہوجاتی ہیں  ،حالانکہ احادیثِ مبارکہ میں بُرائی کو روکنے کی ترغیبیں موجود ہیں ،چنانچہ

حُضُورِ پاک،صاحِبِ لَولاک،سَیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:تم میں سے کو ئی جب کسی بُرائی کو دیکھے تو اُسے چاہیے کہ بُرائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے او ر جواپنے ہاتھ سے بدلنے کی قوت نہ رکھے اُسے چاہیے کہ اپنی زَبان سے بدل دے اور جو اپنی زَبان سے بدلنے کی بھی اِستِطاعت نہ رکھے اُسے چاہیے کہ اپنے دل میں بُرا جانے اوریہ کمزورترین ایمان کی علامت ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النھی عن المنکر۔۔۔الخ، ص۴۸، حدیث:۱۷۷)

کیا ہم دل میں بُر ا جانتی ہیں ؟

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! اپنے ضمیر سے سُوال کیجئے کہ کسی کو گناہ کرتا دیکھ کر ہاتھ یا زبان سے روکنے میں خود کو بے بس پانے کی صورت میں کیاہم نے دل میں بُرا جانا؟صدکروڑ افسوس! اگر ہمیں ہماری پسند کے کھانے نہ ملیں، ہماری پسند کے کپڑے ہمیں نہ ملیں تو ضرور ناگوار گزرتا ہے  ،بیٹا اسکول کی چُھٹّی کر لے تو ضَرور غصہ آتا ہے لیکن گھر والوں کی روزانہ پانچوں نمازیں قَضا ہورہی ہوں تو ماتھے پر بَل تک نہیں آتے، انہیں سمجھانے کی کوشِش تک نہیں کی جاتی۔ذرا سوچئے !مَثَلًا میوزِک بج رہا ہے،بے شک روکنے پر قُدرت نہیں مگر کیا یہ ہمارے  دل میں کھٹکتا ہے؟کیا ہم اِسے بُر ا محسوس کرتی ہیں؟ جی نہیں،اِس لئے کہ خود اپنے موبائل میں بھی تو معاذ اللہ’’میوزیکل ٹیون(Musical tune)‘‘موجود ہے!۔دو افراد گالَم گلوچ کر رہے ہیں،بُرا لگا ؟جی نہیں،کیوں؟اِس لئے کہ کبھی کبھی اپنے منہ سے بھی معاذ اللہ گالی نکل ہی جاتی ہے۔فُلاں نے جھوٹ بولا،کیاہمیں ناگوار گزرا؟ جی نہیں،کیوں؟ اس لئے کہ