Book Name:Kamalaat-e-Mustafa

٭مرحبا یا مُصْطَفٰے٭مرحبا یا مُصْطَفٰے٭مرحبا یا مُصْطَفٰے٭مرحبا یا مُصْطَفٰے

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حدیثِ پاک سے جہاں رسولِ کریم، رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی دعا کی برکتیں معلوم ہوئیں،وہیں اَمِیْرُالمؤمنین حَضرتِ سَیِّدُنا  عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے طرزِ عمل سے یہ بھی پتہ چلا کہ ہمیشہ دوسروں کی خیر خواہی  کی کوشش کرنی چاہیے۔

خیرخواہی کیجئے

افسوس! آج ہمارے معاشرے میں خیرخواہی کا جذبۂ خیر بھی دم توڑتا نظر آ رہا ہے۔ حالانکہ ہمارا  دِین ”دینِاسلام“ انسانیت کا سب سے بڑا خیرخواہ ہے کہ غیر مسلموں کو امن  و سلامتی والے دِین  کوقبول کرنے اور مسلمانوں کو احترامِ مسلم کرنے کا درس دیتا ۔ ایک دوسرے کی بھلائی چاہنا اور خیرخواہی کرنا، اس کی تعلیمات کا سنہری باب ہے۔رسولِ خدا،مکی مدنی مصطفےٰصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کی خوب ترغیب ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایاکہ دِین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی: کس کی؟ فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے اماموں اور عوام کی۔ (مسلم،کتاب الایمان ،باب بیان ان الدین  النصیحہ ،ص۵۱،حدیث:۱۹۶) 

شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفےٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:خیرخواہی کے مفہوم میں  بڑی وُسْعَت ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ’’ہر مسلمان کی خیر خواہی‘‘یہ ایک ایسا عملِ خیرہے کہ اگر  ہر مسلمان اس تعلیمِ نبوت کو حِرزِ جان بنا کر اس پر عمل شروع کردے تو ایک دَم مسلمانوں کے بگڑے ہوئے معاشرےکی کایا پلٹ جائے اور’’مسلم معاشرہ ‘‘ آرام و راحت اور سکون و اطمینان کا ایک ایسا گہوارہ