Book Name:Badshogooni Haram Hai

کبھی30 دینار کا مالک نہیں ہوا تھااور مجھ پر یہ بات بھی ظاہِر ہوگئی کہ بَدشُگُونی کی کوئی حقیقت نہیں۔(روح البیان،۱/۳۰۴ملخصاً)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!ا س حکایت سے پتہ چلا کہ بدشُگُونی نام کی کسی چیز کو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔وہ شخص دورانِ سفر  اپنےذِہن کے مُطابق بد شگونیوں کا شکار ہوااور یہ سوچنے لگا کہ اب  سفر ختم کر کے واپس جانے میں ہی عافیت ہے ۔ کیونکہ اس کے خیال کے مطابق  اتنی ساری بد فالیوں کے بعد اس کی حاجت کا پورا ہو نا مُمْکِنات میں سے نہیں  تھا لیکن اس کی حاجت  شدید تھی اس لیے سفر ختم نہ کیا ۔اور جب وہ وہاں پہنچا تو اس کی  توقُّع کے بَرخلاف اسے اتنی رقم مل گئی جو اس سے پہلے اس نے کبھی دیکھی  بھی نہیں تھی ۔ اپنی حاجت کے اس طرح پورا ہونے کے بعداس نے یہ ذہن بنا لیا کہ بدشُگُونی کی کوئی  حقیقت نہیں ہے۔

شُگُون کی قسمیں  

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!شُگُون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز ،شَخْص، عَمَلْ،آواز یا وَقْت کو اپنے حَقْ میں اچّھا یابُرا سمجھنا ۔ اِس کی بُنیادی طور پردو قسمیں ہیں:٭بُرا شُگُون لینا٭اچّھا شُگُون لینا۔چنانچہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوۓ  علامہ محمد بن احمد اَنصاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی فر ماتے ہیں :اَچّھا شُگُون یہ ہے کہ جس کام کا اِرادَہ کیا ہو اُس کے بارے میں کوئی کلام سُن کردلیل پکڑنا،یہ اُس وَقْت ہے جب کلام اَچّھا ہو، اگر بُرا ہو تو بدشُگُونی ہے۔ شریعت نے اِس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اَچّھا شُگُون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایَۂ تکمیل تک پہنچائے اور جب بُراکلام سُنے تو اُس کی طَرَف تَوَجُّہ نہ کرے اورنہ ہی اُس کے سَبَب اَپنے کام سے رُکے۔ (الجامع لاحکام القراٰن للقرطبی، پ۲۶، الاحقاف، تحت الاٰیۃ: ۴، ج۸، جزء۱۶، ص۱۳۲)