Book Name:Badshogooni Haram Hai

یقینی طور پر کام ہو جانے کا وُثُوق(اِعتماد اور بھروسہ)ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضَروررُکاوٹ اور پریشانی ہوگی۔ چنانچہ اُن لوگوں کو ان کے خیال کے مُناسب ہربار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اِس اَمر(یعنی بات) کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے اس سے سامنا ہوجائے تو اپنے مکان پر واپس آجاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے !اپنے کام کے لئے جاتے ہیں۔اب سُوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرزِ عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ(شرعاً بُرا) تو نہیں؟ اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے جواب دیا:شرعِ مُطَہّر(پاک شریعت) میں اس کی کچھ اَصل نہیں،لوگوں کا وَہْم سامنے آتاہے۔شریعت میں حکم ہے:اِذَاتَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْا یعنی جب کوئی شُگُون بَد، گمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہیے کہ ’’اَللّٰہُمَّ لَاطَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ،وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ،وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘(یعنی اے اﷲ!نہیں ہے کوئی برائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں)پڑھ لے اور اپنے رَبّ (کریم)پر بھروسا کرکے اپنے کام کو چلا جائے ، ہر گز نہ رُکے ،نہ واپس آئے۔(فتاویٰ رضویہ،۲۹/۶۴۱ ملخصاً)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دل آزاری سے بچئے!

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! کسی شخص کو منحوس قرار دینے میں اس کی سَخْت دل آزاری اور آخرت میں ذلت وخواری اور جہنم کی حقداری ہے۔اگر ہم نے کسی  بدشُگُونی  کے سبب کسی کومنحوس کہہ کر اس کی دل آزاری کی ہو یا کسی بھی سبب سے اس کا دل دُکھایا مثلاًگالی دی، برے لقب سے پکارا ،مذاق اڑا یا،آنکھیں دکھا کر ڈرایا، مارا پِیٹا، نقلیں اُتاریں یا اس کی  غيبت کی  اور اس کو پتا چل گیا۔ اَلغَرَض کسی