Book Name:Seerat e Mufti Farooq

وسُجود کرتے تو ایک پاؤں موڑلیتے جس کی وجہ سے بہت تکلیف اور پریشانی ہوتی۔    دوستوں نے یہ حالت دیکھی تو کہا:   اے ابُو قاسم! یہ کیا ہے؟آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے پاؤں مُتَوَرَّم   (یعنی سُوجے ہوئے)  کیوں ہیں؟ فرمایا:  ’’اللہ اَکْبَر،  یہ تو نعمت ہے۔ ‘‘حضرت سیِّدُناابُو محمدحَرِیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا:  ’’ اے ابو قاسم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ !  اگر آپ لیٹ جائیں تو کیا حرج ہے؟‘‘ فرمایا:   ’’ابھی وَقْت ہے،   جس میں کچھ نیکیاں کر لی جائیں،   اس کے بعد کہاں موقع ملے گا۔ ‘‘ پھر اللہ اَکْبَر کہا اور آپ کی رُوح اس دارِفانی سے عالَمِ بالا کی طرف پرواز کرگئی ۔   یہ بھی منقول ہے کہ جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے کہا گیا:  حُضُور! اپنی جان پر کچھ نرمی کیجئے ،   تو فرمایا :   اب میرا نامۂ اعمال بند کیا جارہا ہے ،   اس وَقْت نیک اعمال کا مجھ سے زِیادہ کون حاجت مندہوگا۔   (عیون الحکایات:  ۲   /   ۷۹)

مِری زندگی بس تِری بندگی میں

ہی اے کاش!  گُزرے سدا یا اِلٰہی

  (وسائلِ بخشش،  ص:  106

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ہمارے اسلاف اور ہم:  

میٹھی میٹھی ا سلامی بہنو!  بیان کردہ حِکایت  سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بُزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نیکیاں کمانے میں کس قدر حَریص تھے کہ  سیدنا جنیدِ بغدادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا جاں کَنی کا وَقْت ہے،   کمزوری اور نَقاہت کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز اَدا کرنا ممکن نہیں ہے،  کثرتِ عِبادت کے سبب پاؤں سُوجے ہوئے ہیں،   تکلیف کی شدّت ہے،  ان تمام اَعذار   (Reasons کے باوُجُود بھی خواہش یہی ہے کہ مزید کچھ نیکیاں کرلی جائیں جبکہ دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنی زندگیاں طرح طرح کے فضول کاموں میں برباد کر رہی  ہیں،  ٭ بزرگانِ دین  زندگی کی شاہراہ پر ہر قدم دین اور شریعت کی اتباع میں اٹھاتے جب کہ ہم دین و شریعت پر عمل سے جی چرا تی ہیں،   ٭ بزرگانِ دین فرض و واجب کے ساتھ ساتھ سنت اور مستحب کی بھی زبردست پابندی فرماتے تھے جبکہ ہم فرائض و واجبات سے بھی غافل ہیں،   ٭ بزرگانِ دین آخری دَم تک نیکیاں کمانے کی دُھن میں مگن رہتے جبکہ ہم میں نیکیاں کمانے کی حرص نظر نہیں آتی ،  ٭ہمارے اسلاف سالہا سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نمازیں ادا کیا کرتے تھے جبکہ ہماری ایک تعداد ہے جسے مَعَاذَ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ فجر میں بیدار ہونے کی توفیق نہیں ملتی،   ٭ہمارے اَسلاف