Book Name:Maqam e Sahaba o Ahle Bait

بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے (میں نے سوچا جب بیٹے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے مجھے کیسے ہوسکتی ہے)   لہٰذا میں ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا۔   ‘‘  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا:”اَنْتَ اَحَقُّ بِالْاِذْنِ مِنْ عَبْدِ اللہِ ابْنِ عُمَرَ اِنَّمَا اَنْبَتَ فِيْ رُؤُوْسِنَااللہُ ثُمَّ اَنْتُم یعنی آپ میری اولاد سے زیادہ اس بات کےحق دار ہیں کہ اندر آجائیں۔   ہمارے سروں پر یہ جو بال ہیںاللہ پاک کے بعد تم نے ہی تو اگائے ہیں۔   ‘‘   (تاریخ ابن عساکر ،   ۱۴ / ۱۷۶،   ریاض النضرہ ،   ۱ / ۳۴۱)  

کیا بات رضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی

زَہرا ہے کلی جس میں حُسین اور حسن پُھول

 (حدائقِ بخشش مرمم،   ص۷۹)

مختصر وضاحت:اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس  شعر میں اپنے آپ کو مخاطب کرکے یوں ارشاد فرماتے ہیں ،    اے رضاؔ اُس کرم ورحمت والے باغ کی  کیا بات ہے،    جس باغ ِرسالت   کی کلی   سیدۃُ النّساء  فاطمۃُ الزہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہااورسَیِّدَاشَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّۃامامِ حسن و امامِ حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہُاجس مہکتے  باغ  کے پھول ہوں۔    

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تذکرۂ امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ   

میٹھی میٹھی ا سلامی بہنو! 10 محرم الحرام کو نواسۂ رسول،    جگر گوشۂ بتول،    سَیِّدُالشُّہدا،    راکبِ دَوشِ مُصْطفےٰ،    فرزندِ مَولا علی مُشکِل کُشا حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ کربلا کے تپتے ریگستان میں شہید کیا گیا۔    آئیے ثواب کی نیت سے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا مختصر  (Short) ذکرِ خیر سنتی ہیں: