Book Name:Rishty Daroon Se Husn e Sulook

ساتویں مَدَنی پھول جس میں ’’اَدلے بدلے‘‘کا ذِکْر ہے اِس کے بارے میں عَرْض ہے کہ آج کل عُموماً یہی ’’ادلا بَدلا ‘‘ہورہا ہے۔ ایک رشتے دار اگر اِس کو شادی کی دعوت(Invitation)دیتا ہے جبھی یہ اُس کو دیتا ہے اگر وہ نہ دے تو یہ بھی نہیں دیتا۔اگر اُس ایک نے اِس کو زیادہ افراد کی دعوت دی اور یہ اگر اُس کو کم افراد کی دعوت دے تو اِس کا ٹھیک ٹھاک نوٹس لیا جاتا، خوب تنقیدیں اورغیبتیں کی جاتی ہیں۔بدقِسمتی سے علمِ دِین سے دُوری کی وجہ سے آج کل معاشرے میں یہ ماحول بھی عام ہوتاجا رہاہے کہ کسی موقع پرلَین دَین کے معاملات میں بھی یہی اندازاختیارکیا جاتاہےکہ جتنے پیسے فُلاں نے دیے،ہم بھی اُتنے ہی دیں گے،حتّٰی کہ بعض نادان کسی رِشتہ دارکے فوت ہونے پرنمازِ جنازہ میں شرکت نہیں کرتے،ایک دُوسرے کی خوشی اورغم میں شریک نہیں ہوتےکیونکہ چھوٹی چھوٹی  ناراضیوں کے سبب یہ ایک دُوسرے کے دُشمن بن چکے ہوتےہیں۔اِسی طرح جو رِشتے دار اِس کے یہاں کسی تقریب میں شرکت نہیں کرتا تویہ اُس کے یہاں ہونے والی تقریب کا بائیکاٹ کر دیتاہے اوریُوں فاصِلے مزید بڑھائے جاتے ہیں۔حالانکہ کوئی ہمارے یہاں شریک نہ ہوا ہو تو اُس کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کے کئی پہلو نکل سکتے ہیں،مَثَلاً وہ نہ آنے والا بیمار ہو گیا ہوگا،بھول گیا ہوگا، ضروری کام آپڑاہوگا،یا کوئی سخت مجبوری ہوگی جس کی وضاحت اُس کے لئے دشوار ہوگئی ہوگی وغیرہ۔وہ اپنی غیر حاضری کا سبب بتائے یا نہ بتائے،ہمیں حُسْنِ ظَن رکھ کر ثواب کمانا اور جنّت میں جانے کا سامان کرتے رہنا چاہئے۔چُنانچِہ فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ:حُسْنُ الظَّنِِّ مِن حُسْنِِ الْعِبَادَۃِ یعنی حُسنِ ظن عمدہ عبادت سے ہے۔(ابوداود،کتاب الادب،باب فی حسن الظن ،۴ /۳۸۸،حدیث: ۴۹۹۳)

حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے مُختلِف مطالِب بَیان  کرتے ہوئے لکھتے ہیں :یعنی مسلمانوں سے اچھا گمان کرنا ،اُن پر بدگمانی نہ کرنا ،یہ بھی اچھی