Book Name:Rishty Daroon Se Husn e Sulook

کو بھی اِس کام میں شامل کرلیا۔خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اچانک لوہے کا پائپ اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر سیدھا بیٹے کی آنکھ پر جالگااور اُس کی آنکھ پپوٹے سمیت باہر نکل پڑی ،اُس کے دل پر قِیامت گزر گئی اور اُس کے ذِہْن میں اپنی سگی بہن کو کہے گئے اَلفاظ گُونجنے لگے کہ میں اپنے صحیح سلامت بیٹے کی شادی تمہاری اَندھی لڑکی سے نہیں کرسکتی،اب اُسے اپنے اَنداز پر نَدامت(شرمندگی) ہونے لگی لیکن اب کیا فائدہ! بیٹے کی آنکھ تو جاچکی تھی۔(جیسی کرنی ویسی بھرنی، ص۴۷-۴۸)

دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت                      سچ ہے کہ بُرے کام کا اَنجام بُرا ہے

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سُنا آپ نے!جولوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بُنیاد بنا کر بِلاوجہ رشتے داروں سے ناطہ توڑ ڈالتے ہیں،اُن کی عزّت خراب کرتے ہیں اوراُن کی دل آزاری کے گناہ میں مُبْتَلا  ہوتے ہیں تو اُنہیں کس قدرذِلَّت و رُسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،مگر افسوس!صد کروڑ افسوس!آج ہمارے مُعاشَرے میں رِشتہ داری گویا کچّے دھاگے کی طرح نازُک و حسّاس ہوچکی ہے۔اپنی نفسانی ضِد کی خاطِر رشتے دار آپس میں ہی ایک دوسرے کے خُون کے پیاسے ہوچکے ہیں،معمولی نوک جھونک کے سبب منگنیاں توڑدی جاتی ہیں،مالدار رشتے داروں سے تو سب ملنا پسند کرتے ہیں مگر بے چارے غریب رشتے داروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا،اَولاد اپنے والِدَین سے منہ موڑے بیٹھی ہے،بھائیوں میں مَحَبَّتیں خَتم ہورہی ہیں،سگی بہنوں کی آپس میں ٹَھنی ہوئی ہے،سگے بہن بھائیوں میں نفرتوں کا طُوفان مچاہے،لوگ اپنے دوستوں(Friends) وغیرہ سے تو بڑے  اچھے طریقے سے ملتے ہیں مگر جب اِنہی کا کوئی رشتے دار آجائے تو اُس سے سلام تک کرنا بھی گوارا نہیں کرتے حالانکہ ہمیں ہمارے ربِّ کریم نے رِشتے داروں کے ساتھ اچّھا سُلوک کرنے کا حُکْم اِرْشاد فرمایا ہے ،چنانچہ

پارہ21سُوْرَۃُ الرُّوْمکی آیت نمبر38 میں اللہ کریم اِرْشاد فرماتا ہے: