Book Name:Madani Inamaat,Rahe Nijaat

رہے ۔

فکر ِمدینہ کسے کہتے ہیں ؟

یاد رہے کہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں اِحْتِسابِ اَعْمال یا مُحاسَبہ ہی کو ”فکرِ مدینہ “ کہا جاتا ہے۔ فکر ِمدینہ سے مُراد یہ ہے کہ انسان اُخْرَوی اِعتبار سے اپنے معمولاتِ زندگی پر غور و فِکْر کرے،پھر جو کام اُس کی آخرت کے لئے نُقْصان دہ ثابت ہو سکتے ہوں، اُن کی اِصْلاح کی کوشش کرے اور جو کام اُخْرَوی اِعتبار سے نَفْعْ بَخْش نظر آئیں اُن میں بہتری کے لئے اِقْدامات کرے۔اِسْتِقامت کے ساتھ فکرِ مدینہ کرنے سے خُوب خُوب برکتیں حاصل ہوتی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ بُزرگانِ دین  رَحْمَۃُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نہایت اِسْتِقامت کے ساتھ فکرِ مدینہ (اپنے اَعْمال کا مُحاسَبہ )کِیا کرتے تھے اور اس سے کسی صُورت بھی  غفلت اِخْتیار نہ کرتے ۔چنانچہ،

دن بھر فکرِ مدینہ

حضرت سَیِّدُنا محمد بن واسِعْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اہْلِ بَصْرہ میں سے کسی شخص نے حضرت سَیِّدُنا ابو ذَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کے بعد اُن کی زوجۂ مُحْترِمہ سے اُن کی عِبادت کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے جواب دیا :وہ دن بھر گھر کے ایک کونے میں (آخرت کے بارے میں )غور و فِکْر کرتے رہتے تھے ۔([1])

ہر دم فکر ِ مدینہ

    منقول ہے کہ حضرت سَیِّدُنا حَسَن بَصْری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُچالیس (40)برس تک نہیں ہنسے ۔ راوی


 

 



[1] احیاء علوم الدین، کتاب التفکر ،۵/۱۶۲