Book Name:Madani Inamaat,Rahe Nijaat

کہتے ہیں کہ میں جب بھی ان کو بیٹھے ہوئے دیکھتا،یوں معلوم ہوتا گویا ایک قیدی ہیں جسے گردن اڑانے کے لئے لایا گیا ہو اور جب گُفتگو فرماتے تو انداز ایسا ہوتا گویا آخرت کو آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر اُس کے اَحْوال بتا رہے ہوں اور جب خاموش رہتے تو ایسا محسوس ہوتا گویا اُن کی آنکھوں کے سامنے آگ بھڑک رہی ہے ۔ جب اُن سے اس قدر غمگین وخوف زدہ رہنے کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا :مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر اللہ پاک نے میرے بعض ناپسندیدہ اَعْمال کو دیکھ کر  مجھ پر غضب فرمایااور یہ فرما دِیا کہ ”جاؤ! میں تمہیں نہیں بَخْشتا“ تو اس صُورت میں میرے تمام اَعْمال ضائع ہوجائیں گے؟([1])

روزانہ فکر ِ مدینہ

حضرت سَیِّدُنا عطاء سُلَمِی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جنہوں نے خوفِ خدا کی وجہ سے چالیس (40)سال تک آسمان کی طرف نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی نے اُنہیں مُسکراتے ہوئے دیکھا ،اِن کے بارے میں منقول ہے کہ آپ روزانہ اپنے نَفْس کو مُخاطَب کر کے فرماتے:اے نَفْس! تُو اپنی حد میں رہ اور یاد رکھ !تجھے قبر میں بھی جانا ہے ، پلِ صِراط سے بھی گُزرنا ہے، دُشمن (یعنی آنکڑے)تیرے اِرد گِرد مَوْجُود ہوں گے جو تجھے دائیں بائیں کھینچیں گے ، اس وقت قاضی،رَبِّ کریم کی ذات ہو گی اور جیل ، جَہَنَّم ہو گی جبکہ اس کے داروغہ سَیِّدُنا مالک (عَلَیْہِ السَّلَام)ہوں گے، اُس دن کا قاضی(مَعَاذَ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ) نااِنْصافی کی طرف مائل نہیں ہوگا اور نہ ہی داروغہ کوئی رِشْوَت قَبول کرے گا اور نہ ہی جیل توڑنا مُمکن ہوگا کہ تُو وہاں سے فرار ہو سکے، قیامت  کے دن تیرے لئے ہلاکت ہی ہلاکت ہے، یہ بھی نہیں معلوم کہ فِرِشْتے تجھے کہاں لے جائیں گے ، عزّت وآرام کے مقام جنّت میں یا حسرت اور تنگی کی جگہ جَہَنَّم میں، (یُوں آپ  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ


 

 



[1] احیاءعلوم  الدین، کتاب الخوف والرجاء ،۴/۲۳۱