Book Name:Madani Inamaat,Rahe Nijaat

فکرِ مدینہ کرتے رہتے )اس دوران آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی چشمانِ مُبارک  یعنی آنکھوں سے آنسو بھی بہتے رہتے۔([1])  

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نےسنا کہ ہمارے بُزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن میں فکرِ مدینہ کا جذبہ کس قدر کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا ،اُن مُبارک ہستیوں کے نزدیک فکرِ مدینہ(یعنی اپنا محاسبہ کرنے)  کی کس قدر اہمیت تھی کہ ہر وقت اپنے اَعْمال کے بارے میں فکرمند رہتے کہ نہ جانے ہمارے یہ اَعْمالاللہ کی بارگاہ میں مَقْبُول ہو کر ہماری مَغْفرت کا ذریعہ بنیں گے یا مَرْدُود ہو کر ہماری ہلاکت کا سبب ثابِت ہوں گے۔ذرا سوچئے کہ جب یہ مَقْبُولانِ بارگاہ اس قدر اِسْتِقامت کے ساتھ فکر ِمدینہ کِیا کرتے تھے تو ہم گُناہ گاروں کو فکرِ مدینہ کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔فکرِ مدینہ کرنے کی اِفادِیَّت اور نہ کرنے کے نُقْصان کا اندازہ اِس مثال سے لگایئے کہ جس طرح دُنیاوی کاروبار سے تَعَلُّق رکھنے والا کوئی بھی شخص اسی وقت کامیاب کاروباری بن سکتا ہے، جب وہ اپنے خرچ کیے ہوئے مال سے کئی گُنا زیادہ نفع کمانے میں کامیاب ہوجائے اور اس کا اَصَل سرمایہ بھی مَحْفُوظ رہے ۔ اِس مَقْصَد کے حُصُول کے لئے وہ اپنے کاروبار(Business)میں حساب کتاب کو روزانہ ، ہفتہ وار ، ماہانہ یا سالانہ کی بُنْیاد پر تَقْسِیم کرتا ہے،پھر اُس پر مختلف پہلوؤں سے نہ صرف زبانی غور و فِکْر کرتا ہے بلکہ اُس کوتحریر بھی کرتاہے اورمختلف طریقوں سے اُس کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے،نیز جہاں کسی قسم کی خامی نظر آئے اُسے دُرُسْت کرتا ہے اور جوچیز نفع کے حُصُول میں رُکاوٹ بنتی نظر آئے اس کو دُور کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے کاروباری مُعامَلات کا مُحاسَبہ نہ کرے تواکثر اَوْقات اُسے نفع حاصل ہونا تو درکِنار ،اُلٹا نُقْصان کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور اگر اس نُقْصان کے بعد بھی وہ ”خواب ِ خرگوش“(یعنی غفلت کی گہری نیند) سے بیدار نہ ہوتو ایک دن ایسا بھی


 

 



[1] حکایات الصالحین،ص ۵۰