Book Name:Madinay Ki Khasoosiyat

سُبْحٰنَاللہعَزَّ وَجَلَّ  ! سناآپ نے! امام مالکرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کس قدر مدینہ شریف سے محبت فرماتے اور اس کا ادب کرنے والے تھے۔چونکہ آپ عالمِ مدینہ بھی تھے تو ادب بھی آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جبکہ آج ہمارے معاشرے کو علم  وادب دونوں کی بہت ضرورت ہے،علم کی دولت پاس ہوگی تو ادب کی سعادت بھی ملے گی اور علم سے خالی ہوں گے تو خطرہ ہے کہ بے ادبی کی گہری کھائی میں جاگریں۔خصوصاً سفرِ مدینہ کے دوران تو زائرِ مدینہ کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا اور باادب رہنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے۔یہ وہ در ہے جس کا ادب ہمارے رب نے ہمیں سکھایا ہے،لہٰذا اس معاملے میں تھوڑی سی سستی  وکوتاہی کا  مظاہرہ کرنا بہت بڑے نقصان و خُسران کا سبب ہے۔آئیے !اس بارے میں ایک عبرت ناک واقعہ سنئے اور عبرت حاصل کیجئے ،چنانچہ

مدینے کی دہی  کی بے ادبی کا وبال

          ایک شخص مدینہ  منورہ   میں ہروقت روتا اور معافی مانگتا رہتا، جب اس سے اس کی وجہ  پوچھی گئی تواس نے جواب   دیا ۔ ایک دن میں  نے مدینہ طیبہ کے  دہی کو کھٹا اورخراب کہہ  دیا ، یہ کہتے ہی  میری نسبت(معرفت) سلب ہوگئی اور   مجھ پر عتاب(سختی ) ہواکہ  دیارِمحبوب  کی  دہی کو خراب کہنے  والے نگاہِ محبت  سے دیکھ ! محبوب  کی  گلی کی  ہر ہرچیزعمدہ ہے ۔ (بہارمثنوی ،۱۲۸ماخوذاً)

محفوظ سدا رکھنا شہا! بے ادبوں سے                                                                                                          اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

(وسائل بخشش مرمم،ص۳۱۵)

                صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                    صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

               میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!مدینےجانےوالوں کی قسمت کاستارہ عروج پرہوتا ہے،ان کےنصیب چمک رہے ہوتےہیں،ان کی سعادتوں کی معراج ہوتی ہے،ان کی خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے اوران پررحمتِ الہی کی بارش  چھماچھم برس رہی ہوتی ہےبلکہ روضہ رسول کی زیارت کا جام پینے والوں کو نبیِ پاک صَلَّی اللّٰہُ