Book Name:Madinay Ki Khasoosiyat

اُتنے دنیا کے کسی اورشہر یا خِطّے(سرزمین) کے لئے نہیں پڑھے گئے،جسے ایک باربھی مدینے کا دِیدار ہوجاتاہے وہ اپنے آپ کو بَخت بیدار(خُوش قسمت)سمجھتا اورمدینے میں گُزرے ہوئے حَسین لمحات کو ہمیشہ کے لئے یاد گار قَرار دیتا ہے۔عُشّاقِ مدینہ اِس کی فُرقَت(جُدائی)میں تڑپتے اور زِیارَت کے بے حد مُشتاق رہتے ہیں۔مدینہ کیا ہے اور مدینے سے عشق کیسا ہونا چاہئے؟مدینے سے جدائی کے وقت ہمارے جذبات کیسے ہونے چاہئیں؟اس کے لئے بزرگانِ دین کی سیرت اور ان کا کردار ہمارے لئے لائقِ تقلید ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّبزرگانِ دین کے خمیر میں مدینے اور محبوب کی گلیوں کا عشق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔مدینے سے دوری اور شہرِ محبوب کی جدائی ان کے لئے ایک ناقابلِ برداشت مرحلہ ہوتا ہے۔انہیں ہرگز یہ گوارا نہیں ہوتا کہ کوئی انہیں شہرِ محبوب سے جدا کرے،یوں ہی بعض بزرگانِ دین کا سفرِ مدینہ سے واپسی کا منظر بھی انتہائی پُردرد اور قابلِ رشک ہوتا ہے۔مدینے سے جدائی پر یہ حضرات ایسے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں جیسے کوئی بچہ اپنی ماں سے جدائی پر روتا اور حسرت سے بار بار مڑ مڑ کر اسے دیکھتا ہے۔آئیے!بطورِ ترغیب بزرگوں کے عشق و محبت میں ڈوبے ہوئے معمولات کے بارے میں  سنتی ہیں تاکہ جن کی آنکھوں نے مدینہ دیکھ لیا ہے ان کے دل میں مدینے کی یادیں تازہ ہوجائیں اور جو وہاں کی پرکیف فضاؤوں کو دیکھنے کے لئے بےقرار ہیں ان کی تڑپ میں مزید اضافہ ہوجائے،چنانچہ

میں چھوڑ کر مدینہ نہیں جاتا نہیں جاتا:

            خلیفہ ہارونُ الرَّشید نے حضرت سَیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا: ’’کیا آپ کا کوئی گھر ہے؟“فرمایا:’’نہیں۔“تو اُس نے آپ کی خدمت میں تین ہزار(Three Thousand)دینار پیش کرتے ہوئے کہا کہ”اِن سے گھر خرید لیجئے!“آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ نے دینار لے کر رکھ لئے اور انہیں خرچ نہ کیا ۔جب خلیفہ ہارونُ الرَّشید مدینۂمُنَوَّرَہ سے جانے لگا تو اُس نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں عرض کی:’’آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہو گاکیونکہ میں نے عَزم(اِرادہ) کیاہے کہ لوگوں کو (حدیثِ پاک کی