Book Name:Aala Hazrat Ki Ibadat o Riazat

کے جدِّ اَمجد(دادا جان) نےآپ کااسم شریف’’احمد رضا‘‘رکھا۔اورآپ کاتاریخی نام’’المختار‘‘ہے(جبکہ کُنْیَت ابو محمد ہے) اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خُود اپنے نام سے پہلے’’عَبْدُالْمُصْطفٰے‘‘لکھا کرتے تھے۔(تجلیاتِ امام احمد رضا ،ص21) چُنانچہ اپنے نعتیہ دیوان”حدائقِ بخشش“ میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

خَوْف نہ رکھ رضا ؔؔؔؔؔ  ذرا، تُو تو ہے ’’عبدِ مصطفےٰ‘‘

تیرے لیے اَمان ہے، تیرے لیے اَمان ہے

(حدائقِ بخشش،ص۱۷۹)

چونکہ یہ ماہِ شَوّالُ الْمُکَرَّم اَعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی  پیدائش کا مہینا ہے،لہٰذا اسی مُناسبت  سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی  حیاتِ طیّبہ کے ایک گوشے یعنی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عِبادت و رِیاضت کے حوالے سے سُننے کی سَعادت حاصِل کریں گے۔آئیے! بَیان  کا آغاز ایک ایمان افروز حکایت سے کرتے ہیں۔چُنانچہ  

ٹرین رُکی رہی:

خلیفۂ اعلیٰ حضرت،حضرت مَولانا سیِّدایوب علی رَضَوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک بار پیلی بِھیت سے بریلی شریف بذرِیعۂ ریل(ٹرین) جارہے تھے۔ راستے میں نواب گنج کے اِسٹیشن پرجہاں گاڑی صرف دو مِنٹ کے لیے ٹھہرتی ہے،مغرب کا وَقْت ہوچکا تھا،آپ نے گاڑی ٹھہر تے ہی تکبیرِ اِقامت فرما کر گاڑی کے اَندر ہی نیَّت باندھ لی، غالباً 5 اَفرادآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی اِقْتِدامیں نمازِ باجماعت کیلئے شَریک ہوئے ، اُن میں مَیں بھی تھا، لیکن ابھی شریکِ جماعت نہیں ہونے پایا تھا کہ میری نظر ایک غیر مُسلِم گارڈ پر پڑی جو پلیٹ فارم پر کھڑا سَبْز جھنڈی ہِلا رہا تھا ،میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا ، لائن کلیرتھی اور گاڑی چُھوٹ رہی تھی، مگرگاڑی نہ چلی