Book Name:Aala Hazrat Ki Ibadat o Riazat

تھے،یہاں تک کہ تِیسویں روز تِیسواں پارہ یاد فرمالیا۔ ایک موقع پر فرمایا کہ میں نے کلامِ پاک بِالتَّرتیب بکوشِش یاد کرلیا اور یہ اس لیے کہ اُن بندگانِ خُدا کا ( جو میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں) کہنا غَلَط ثَابِت نہ ہو۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت،۱/ ۲۰۸از تذکرۂ امام احمد رضا،ص۶)

اپنی تعریف سے بچئے!

                میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!اس واقِعہ سے جہاں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے حافظے کا کمال معلوم ہوا وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دوسروں کی زبان سے  اپنے لیے ایسے اَوْصاف سُننا جو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ذات میں  نہ پائے جاتے ہوں کس قَدَر نا پسند تھا۔اسی طرح کا واقِعہ کروڑوں حَنَفیوں کے امام ، حضرت سیّدُنا امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے ساتھ بھی پیش آیا،

امامِ اعظم کا تقویٰ:

وہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت سَیّدُنا امامِ اعظم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پہلے آدھی رات عِبادت کِیا کرتے تھے۔ایک دن راستے سے گزر رہے تھے کہ کسی کو یہ کہتے سنا کہ یہ ساری رات عِبادت میں گزارتے ہیں۔ پھر اس کے بعد سے پوری رات عِبادت کرنے لگے اور فرماتے : ”مجھے اللہ پاک سے حَیا آتی ہے کہ میرے بارے میں اس کی عِبادت کے مُتَعَلِّق ایسی بات کہی جائے جو مجھ میں نہ ہو۔ (تاریخِ بغداد، النعمان بن ثابت :۷۲۹۷، ج ۱۳،ص۳۵۳، ۳۵۴۔)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!حضرت سیّدُنا امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اُن کے مَظْہَرِ اَتَمّ  الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کا اپنی جھوٹی تعریف سے بچنے کا جذبہ صَد کروڑ مَرحَبا! اے کاش ہم بھی اپنی جُھوٹی سچی تعریف پر پُھولے  نہ سَمانے کے بجائے اپنے کردار میں مزید نِکھار پیدا کرنے کی کوشش  کِیا کریں ۔ یاد رکھئے ! اپنی جُھوٹی تعریف پر خُوش ہونا شَرعاًجائز نہیں۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی