Book Name:Aala Hazrat Ki Ibadat o Riazat

عَلَیْہاِرْشاد فرماتے ہیں:اگر(کوئی )اپنی جُھوٹی تعریف کو دوست رکھے کہ لوگ اُن فَضائِل سے اُس کی ثَناء(یعنی تعریف) کریں جو اُس میں نہیں جب تو صریح حرامِ قَطعی ہے۔(فتاویٰ رضویہ : ۲۱/۵۹۷) اس لیے کسی کو اپنی جھوٹی تعریف کرنے ہی نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ اگر کوئی ہماری ایسے اَوصاف سے تعریف کرے جو ہم میں پائے جاتے ہوں، تب بھی ایسے شَخْص کی ہاتھوں ہاتھ اِصْلاح کرنے کی ترکیب کر لی جائے اوراُسےتعریف کرنے سے باز رہنے کی تَلْقین کی جائے۔ قرآن و حدیث کی مُقدّس تعلیم سے پتا چلتا ہے کہ اپنی تعریف پر خُوش ہو کر پُھول جانے والا آدمی اللہ پاک اوراس کے رَسُول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے حدناپسند ہے اوراس قسم کے مَردوں اورعورتوں کے اِردگرد اکثر چاپلوسی کرنے والوں کا مجمع اِکٹھا ہو جاتا ہے اور یہ خُود غَرض لوگ تعریفوں کے پُل باندھ کر آدمی کو بے وَقُوف بناتے ہیں اورپھر لوگوں سے اپنے مطلب پورے کرتے اور بیوقوف بنانے کی داستان بَیان  کرکے دوسروں کو ہنسنے ہنسانے کامَوقع فَراہم کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ہرکسی کو چاپلوسی کرنے والوں اور مُنہ پر تعریف کرنے والوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور ہرگز ہرگز اپنی تعریف سُن کر خُوش نہ ہونا چاہیے۔

اپنی تعریف سُن کر کیا کریں؟

حدیثِ پاک میں ہے:”مَدّاحوں کے مُنہ میں خاک جھونک دو“(صحیح مسلم''، کتاب الزھد والرقائق، باب النھي عن المدح... إلخ، الحدیث: ۳۰۰۲، ص۱۶۰۰)اس حدیثِ پاک سے یہ مَدَنی پُھول ملا کہ اپنی تعریف پر پُھولے نہیں سمانا چاہیے بلکہ اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب کوئی ہماری (سچی) تَعْریف کرے تو اسے نَرمی سے مَنْع کردیں ،اگر پھر بھی باز نہ آئے تو پُھولنے کے بجائے دل میں داخِل ہونے والی خُوشی کے بارے میں اچھی اچھی نیّتیں کر لینی چاہئیں کہ ربِّ کریم نے مَحْض اپنے کرم سے میرے گُناہوں  پر پردہ ڈال کر میری عِبادتوں  کو لوگوں پر  ظاہِر فرما دیاہے۔ اوراس سے بڑااحسان اورکیا ہو گا کہ اللہپاک