Book Name:Shan e Sayedatuna Aisha Siddiqa

دَرَجےپرفائز تھیں۔بِلاشُبہ یہ سب صحبتِ مُصْطَفٰے اور تعلیماتِ مُصْطَفٰے کی ہی بَرَکتیں تھیں کہ آپ سَرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اِس عمدہ نصیحت پر دل  وجان سے عمل پیرا  رہیں اور کبھی آج کا کھانا اَگلے دن کے لئے بچا کر نہ رکھا۔آج  ہم بھی مَحَبَّتِ رسول کا دعویٰ تو کرتی ہیں مگر ہم لوگوں کا خدا پاک کی ذات پر توکل کمزور پڑتاجارہا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف مہنگائی کا طوفان بَرپا ہے،دودھ اور کھانے پینے کی دیگر چیزوں میں ملاوٹ عام ہے،رمضان  وغیر رمضان میں چیزوں کی قیمتیں بڑھا کر لُوٹ مار کا بازار گرم کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے،راہِ خدا میں خرچ کرنے کے مُعامَلے میں سُستی کا مظاہَرہ کیا جارہا ہے،ذَخیرہ اَندوزی اپنے عروج پر ہے،سُود،رِشوت، خراب مال اورجعلی نوٹوں(Fake Currency) کا لین دین زور و شور سے جاری ہے۔

الغرض آج ہمارا معاشرہ تیزی کے ساتھ  گناہوں کی دلدل میں گِرتا چلا جارہا ہے۔لہٰذا عَافیت اِسی میں ہے کہ ہم ہر نیک و جائز کام میں اللہ پاک  کی ذات پر بھروسا کرنے کی عادت بنائیں۔یاد رکھئے! اللہپاک کی ذات پر تَوَکُّل یعنی بھروسا کرنے کو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فَرْضِ عَیْن قرار دیا ہے،چنانچہ اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنَّت مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:اللہ کریم پرتوکُّل(بھروسا)کرنا فَرْضِ عَیْن ہے۔(فضائلِ دعا،ص۲۸۷)اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّ  وَجَلَّ!تَوَکُّل اِیمان کی رُوح ہے۔توکُّل بندے کو اللہ پاک کے قریب کردیتا ہے۔تَوَکُّل مشکلات اور پریشانیوں میں بندے کو اِسْتِقامت کے ساتھ اُن کے مُقابلے کی قُوَّت (Power)فراہم کرتا ہے۔ تَوَکُّل مُصیبتوں میں اِنسان کی اُمیدیں جگانے کا باعِث بنتا ہے۔آئیے!اب تَوَکُّل کا مفہوم بھی سُن لیجئے کہ تَوَکُّل سے مراد کیا ہے،چنانچہ

تَوَکُّل کا معنٰی و مفہوم