Book Name:Fazail e Sadqat

چاہیے کہ کِس کو صَدَقہ دِیا جائے اور کِس کو نہیں ،بد قسمتی سے  آج کل معاشرے میں حق دار اور حاجَت مَنْد افرادکو ڈھونڈنا بہت مُشکل ہو گیا ہے، کیونکہ بہت سے ایسے اَفْراد بھی دیکھے جاتے ہیں جو بالکل صِحَّت مَنْد اور تَنْدُرُسْت ہوتے ہیں، مگر اپنے آپ کو غریب و نادار اور ضرورت مَنْد کہہ کر دست ِسُوال دراز کرتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے ۔لہٰذا اِس مُعاملے میں بہت اِحْتیاط کی حاجت ہے کہ جو واقعی سفید پوش حاجَت مَنْد ہو یا کمانے پر قُدرت نہ رکھتا ہو،ایسوں کو ہی دِیا جائے،پیشہ ور بھکاریوں کو ہرگز ہرگز نہ دِیا جائے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ثواب کے بجائے ہمارے نامَۂ اَعْمال میں گُناہ لکھ دِیا جائے ۔جیساکہ اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولانا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن  کے فرمان کا خُلاصہ ہے: جن کو سُوال کرنا حلال نہیں، ایسوں کے سُوال پر اُن کا حال جان کر اُنہیں کچھ دینا کوئی کارِ ثواب نہیں بلکہ ناجائز و گُناہ اورگُناہ میں مَدَد کرنا ہے۔ (مُلَخَّصًاًفتاوٰی رضویہ مُخرَّجہ ج10ص303)

سرکارِ مدینہ ، سُلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ باقرینہ ہے: جو شَخْص  لوگوں سے سُوال کرے، حالانکہ نہ اُسے فاقہ پہنچا، نہ اتنے بال بچّے ہیں، جن کی طاقت نہیں رکھتا تو قِیامت کے دن اِس طرح آئے گا کہ اُس کے مُنہ پر گوشت نہ ہو گا۔ (شُعَبُ الْاِیْمَان لِلْبَیْہَقِیّ ج3 ص 274حديث 3526)

یاد رہے کہ عام حاجَت مَنْدوں کے مُقابلے میں طالبات کی ضروریات پوری کرنا اور اُن کی مالی خِدمت کرنا زِیادہ بہتر ہے ۔چُنانچہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 415صفحات پر مشتمل کِتاب ”ضِیائے صَدَقات“ کے صفحہ 172 پر ہے:امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْوَالِیْ نَقْل کرتے ہيں کہ ايک عالِم کا مَعْمُول تھا کہ وہ صَدَقہ دينے میں صُوفی فُـقَراء کو تَرْجِيْح ديتے۔ اُن سے عَرْض کی گئی کہ آپ اگر