Book Name:Dunya Ne Hame Kiya Diya ?

ہے جتنا ہم نے خرچ کر دیا۔ جو رہ گیا وہ ہمارا نہیں بلکہ ورثا کا ہو گا۔ اس لیے عقلمندی کا تقاضا ہے کہ مال ودولت اور دنیا کی ہوس کو ختم کریں اور عاقبت سنوارنے پر توجہ دیں۔ اس پیسے نے کسی سے وفا نہیں کی، یہ واقعی ہاتھوں کا میل ہے، بالفرض اگر زندگی میں کروڑوں اربوں روپے جمع کر بھی لئے جائیں تب بھی  ہم صرف اتنا ہی استعمال کرسکتی ہیں جتنا ہم کر سکیں ۔ یوں سمجھئے جیسے کسی شخص کو خوب بھوک (Hunger)لگی ہو، سامنے بریانی کی دیگ پک رہی ہو، بریانی کی بھینی بھینی خوشبو دل و دماغ کو مسحور کر رہی ہو، دل اس کی طرف مائل ہو، منہ میں پانی آ رہا ہو، دل کر رہا ہو گا کہ ساری کی ساری دیگ کھا لی جائے مگر حقیقتاً اس میں سے کتنا کھایا جائے گا۔ بریانی کی ایک پلیٹ کافی رہے گی، بہت زیادہ بھی کھایا جائے تو دو تین پلیٹوں کے بعد مزید کھانے کی گُنجائش نہ ہوگی۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ پیٹ بھر جاتا ہے مگر جی سیر نہیں ہوتا، دل کر رہا ہوتا ہے کہ اور کھائیں بہت لذیذ بنا ہوا ہے مگر کھاتے نہیں ہیں ، اس لئے کہ مزید کھانے کی گنجائش ہی نہیں رہتی، پیٹ بھرگیا  ہے تو مزید کہاں جائے گا، بالکل اسی طرح آپ جتنا بھی کمائیں، کروڑوں اربوں  روپے جمع کرلیں مگر ان میں سے اتنا ہی کھائیں گے جتنے سے پیٹ بھر جائے  گا۔ اسی طرح کپڑا بھی اتنا ہی استعمال کیا جائے گا جتنے سے ایک سوٹ بن جاتا ہے، الغرض  دنیوی مال و دولت کے اَنْبار بھی  جمع کر لئے جائیں تب بھی استعمال اتنا ہی کر پائیں  گی جتنا ہم کر سکتی ہیں، باقی سب کا سب دُنیا میں رہ جائے گا۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے نبیِ اکرم  صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: بندہ میرا مال میرا مال کہتا رہتا ہے حالانکہ اس کے مال کے صرف تین حصے ہیں:ایک وہ جو کھا کر ختم کر دیا دوسرا وہ جو پہن کر بوسیدہ کر دیا اور تیسرا وہ جو کسی کو (راہِ خدا میں)دیا اور جمع کر لیا۔ اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے سب ختم ہو جانے والا ہے اور وہ  اسے دوسرے لوگوں کے لئے چھوڑنے والا ہے۔

(مسلم،کتاب الزھد والرقائق،باب الدنیاسجن للمؤمن وجنۃ للکافر،ص ۱۲۱۰،حدیث:۷۴۲۰)