Book Name:Jhagray Ke Nuqsanaat

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                          صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بَیان  کردہ حدیثِ پاک کو سامنے رکھتے ہوئے اگرہم بزرگانِ دِین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِم اَجْمَعِیْن کی زندگی کامُطالَعہ کریں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ہم پر واضِح ہوجائے گی کہ یہ حضرات اِس حدیثِ پاک پر پُورے طور پر عمل پیرا اور لڑائی جھگڑوں سے ہمیشہ دُوررہتےتھے، کیونکہ یہ حضرات صرف نام کے عاشِقِ رسول نہیں تھے بلکہ عشقِ رسول اِن کی نَس نَس میں رَچ بَس چُکا تھااور اگرکوئی بِلاوجہ اِن سے جھگڑا بھی کرتاتو یہ اللہ والےحق پر ہونے کے باوُجود اُس سےجھگڑتے نہیں تھے  بلکہ مُعامَلے کو خوش اُسلوبی سے حل فرمایا کرتے تھے ۔اِن کے اِس شاندار طرزِ عمل سے مُتأَثِّر ہوکراِن کا مُخالِف بھی جھگڑا چھوڑ کر صُلْح پر آمادہ ہوجاتےتھے۔آئیے!اِس بارے میں ایک اِیمان  افروز حکایت سُنئے اور جھومئے،چنانچہ

میں تم سے جھگڑا نہیں کروں گا!

”اِحیاءُ الْعلوم“جلد3صَفْحہ نمبر362پر ہے:حضرت سَیِّدُناسالِم بن قُتَیْبَہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بَیان  کرتے ہیں کہ حضرت بشیر بن عُبَیْدُاللہبن ابو بَکْرَہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ میرے پاس سے گزرے تو اِرْشاد فرمایا:آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟میں نے عَرْض کی:ایک جھگڑے کے سبب جو میرےاور میرےچچا زاد بھائی کے درمیان چل رہا ہے۔اُنہوں نے کہا:آپ کے والِد کا مجھ پر کچھ اِحسان ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اِس کا بدلہ چُکا دوں۔(پھر کہا:)میں نے خُصُومَت (جھگڑے)سے بڑھ کر کوئی چیزدِین کولے جانے والی،مُرَوَّت کو کم کرنے والی،لذّت کو ختم کرنے والی اوردل کو مشغول کرنے والی نہیں دیکھی۔یہ سُن کرمیں جانے کے لئے کھڑا ہوا تو میرےچچازاد بھائی نے کہا:کیا ہوا؟میں نے کہا:میں تم سے جھگڑا نہیں کروں گا۔اُس نے کہا:تو تم نے جان لیا ہے کہ میں حق پر ہوں؟میں نے کہا:نہیں۔لیکن میں خود کو اِس