Book Name:Jhagray Ke Nuqsanaat
اور سرکشی پر اُتر آتے اور اُصول و قوانین ماننے سے انکار کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی حقوق تَلف ہوتے اور معاشرے کاا من و سکون تباہ ہو کر رہ جاتا ہے،دینِ اسلام چونکہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ اور معاشرتی امن کو برقرار رکھنے کاسب سے زیادہ حامی ہے، اسی لئے اس دِین نے انسانی حقوق تَلف کرنے اور معاشرتی امن میں بگاڑ پیدا کرنے والے ہر کام سے روکا ہے اوران چیزوں میں ظلم کا کردار دوسرے کاموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ،اس لئے اسلام نے ظلم کے خاتمے کیلئے بھی انتہائی اچھے اِقدامات کئے ہیں تاکہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور وہ امن و سکون کی زندگی بسر کریں ،ان میں سے ایک اِقدام لوگوں کو یہ حکم دینا ہے کہ وہ ظالم کو روکیں اور دوسرا اِقدام ظالم کو وعیدیں سنانا ہے تاکہ وہ خوداپنے ظلم سے باز آجائے۔(تفسیر صراط الجنان،۹/۴۱۷)۔
آئیے!ظلم کی مذمت پر3فرامینِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ملاحظہ کیجئے:
(1)فرمایا:”اپنے بھائی کی مدد کر وخواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ کسی نے عرض کی، یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!اگر وہ مظلوم ہو تو مدد کروں گا لیکن ظالم ہو تو کیسے مدد کروں ؟ارشاد فرمایا:’’اس کو ظلم کرنے سے روک دے یہی(اس کی)مدد کرنا ہے۔“( بخاری، کتاب الاکراہ، باب یمین الرجل لصاحبہ... الخ، ۴/۳۸۹، حدیث: ۶۹۵۲)
(2)فرمایا:”مظلوم کی بددُعا سے بچو!، وہ اللہ پاک سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ کریم کسی حق والے کا حق اس سے نہیں روکتا۔“(شعب الایمان،التاسع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فی ذکر ماورد من التشدید... الخ، ۶/۴۹، حدیث: ۷۴۶۴)
(3)فرمایا: ’’جس کا اپنے مسلمان بھائی پر اس کی آبرو یا کسی اور چیز کا کوئی ظلم ہو تو وہ آج ہی اس سے معافی لے لے، اس سے پہلے کہ(وہ دن آجائے جب) اس کے پاس نہ دِینار ہو نہ درہم،(اس دن)اگر اس ظالم کے پاس نیک عمل ہوں گے تو ظلم کے مطابق اس سے چھین لیے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس مظلوم کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے ۔“( بخاری ، کتاب المظالم و