Book Name:Tawakkul Or Qanaat

خیال آیا کہ تیرے سوا دوسرے پر تکیہ (بھروسا)کر بیٹھا ہوں۔ ربّ تَعَالٰی نے فرمایا: وہ روٹیاں کون بھیجا کرتا تھا؟ عابِد نے عرض کی، یااللہ ! تُو ہی بھیجنے والا ہے۔حکم ہوا! اب میں بھیجوں تو واپَس نہ لوٹانا۔ اُسی خواب کے دَوران یہ بھی دیکھا کہ روٹیاں لانے والا شخص رَبُّ العٰلمین جَلَّ جَلاَ لُہٗ کے دربار میں حاضِر ہے۔ اللہ  تَعَالٰی نے اُس سے پوچھا : تُو نے اس عابِد کو روٹیاں دینی کیوں بند کر دیں؟ اُس نے عرض کی: اے مالِک و مولا! تجھے خوب معلوم ہے۔ پھر پوچھا: اے بندے ! وہ روٹیاں تُو کسے دیتا تھا؟ اس بندے نے عرض کی: میں تو تجھے (یعنی تیری ہی راہ میں دیتا تھا)ارشاد ہوا : تُو اپنا عمل جاری رکھ ، میری طرف سے تیرے لئے اِس کے عِوَض میں جنّت ہے۔(رَوض الرِیاحین ص۱۳۳، ملخصاً)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! اس حکایت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اللہ  تَعَالٰی کی رضا کے پیشِ نظر کیا جانےو الا صدقہ جنت میں داخلے کا سبب بن جاتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ  اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ کے نیک اور پرہیزگار بندے اس پر توکُّل  کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ وہ عبادت گزار شخص شب بھر عبادت میں مصروف رہتا، دن کو روزہ رکھتا  یُوں رات دن عبادت میں بسر کرتا اسے  یقین (Believe) تھا کہ وہ ذات کہ جس کی میں عبادت میں مصروف ہوں روزی دینا اور اپنے بندوں کا پیٹ پالنا اسی کا  کام ہے، میں اس کے کام میں مصروف ہوں اور اس کی عبادت کر رہا ہوں تو وہ مُسبِّبُ الاَسْباب  بھی میری روزی کے اسباب بنا  ہی دے گا اورایسا ہی ہوتا روزانہ ایک بندہ شام کے وقت آکر اسے دوروٹیاں دے جاتا جس سے وہ  روزہ افطار کرتا اور پھر سے عبادت پر کمر بستہ ہوجاتا۔ یقیناً اللہ  تَعَالٰی کی ذات پر اس طرح  کا توکل کرنا اس کے محبوب بندوں کاشیوہ ہے۔ نیزاس حکایت سے درسِ توکل کے ساتھ ساتھ قناعت کی ترغیب بھی ملتی ہے، غور کیجئے! کہ ہم جب  رمضان کے فرض روزے  رکھتے ہیں تو افطار میں اپنے کھانے کیلئے  طرح طرح کی عُمدہ اور عالیشان نعمتیں جمع کرتےہیں، ایک مَرغُوب چیز بھی کم ہوجائے تو گھروالوں سے خَفا ہو تے ہیں، جبکہ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ کا وہ عبادت گزار بندہ روزانہ روزہ رکھتا مگر افطار میں فقط