Book Name:Tawakkul Or Qanaat

دو روٹیوں پر ہی اِکتفا کرتا تھا، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنے نفلی روزوں کیلئے ہمارے فرض روزوں  سے بھی زیادہ عُمدہ اور بہترین افطار کا اہتمام کرتا لیکن  قربان جائیے! اس کی عالیشان قناعت پر  کہ روزانہ دو ہی روٹیوں سے افطار کرتا  اور انہیں اپنے لیے کافی سمجھتا۔ ہمیں بھی قناعت(Contentment)   کی عادت اپنانی چاہیے، آج ایک تعداد رزق میں کمی اورمال میں بے  برکتی کی شکار نظرآتی ہے، ایسوں کو چاہیے کہ رزق میں اضافے اور برکت کے ساتھ ساتھ اپنے لئے  قناعت کی دولت ملنے کی دُعا بھی کیا کریں، کیونکہ قناعت جس بندے کو نصیب ہوجائے اسے دُنْیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ قناعت بندے کو غیر کے دروازے پر جھکنے اور کسی کے سامنے دَسْتِ سوال دراز کرنے سے بچا کر صرف  رَزّاقِ حقیقی عَزَّ  وَجَلَّپر بھروسا کرنا سکھاتی ہے۔ قناعت بندے میں خودداری اور حمیت پیدا کرتی ہے جبکہ خواہشات کی پیروی انسان کو غلام بنا کر رکھ دیتی ہے۔

قناعت کی تعریف:

      قناعت کہتےکسے ہیں؟ اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت علامہ عبدُالمصطفےٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتےہیں: انسان کوجوکچھ خدا عَزَّ  وَجَلَّ کی طرف سے مل جائے،اس پر راضی ہو کر زندگی بسر کرتے ہوئے، حِرص اور لالچ کے چھوڑ دینے کو’’قناعت‘‘ کہتے ہیں۔ قناعت کی عادت انسان کےلئےخدا عَزَّ  وَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہے، قناعت پسند انسان سُکون کی دولت سے مالا مال رہتا ہے جبکہ حریص اور لالچی انسان  ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔ (جنتی زیور، ص ۱۳۶ملخصاً)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! یقیناً قَناعت اعلیٰ ترین انسانی صفات میں سے ایک ہے، قناعت کرنے والا اپنی خواہشات کوروکنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ قناعت سے مُنہ موڑنے والا نفس کا غلام بن کر ہمیشہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہے۔ قناعت کرنے والے کو اللہ  تَعَالٰی کا شکر بجا لانے کی توفیق ملتی ہے جبکہ اگرقناعت سے مُنہ موڑنے والے کی ایک بھی خواہش پوری نہ ہوتو وہ شکوہ شکایت پر اُتر آتا ہے۔ قناعت