Book Name:Parosi Kay Huquq

تھک ہا ر کر دونوں بچے سوگئے۔ ہم نے انہیں ایک چٹائی پر لِٹادیا ،پھر تیسرے کوبہلانے لگے،بالآخر وہ بھی سوگیا۔ حاتم طائی نے کہا:آج نہ جانے مجھے نیند کیوں نہیں آرہی ؟ پھر وہ اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ اچانک ہمارے گھر کے باہر کسی کی آہٹ سُنائی دی، حاتم طائی نے بلند آواز سے کہا: کون ہے؟لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔میں باہر گئی اور حالات کا جائزہ لے کر واپس آئی اورحاتم طائی کوبتایا:آپ کی فُلاں پڑوسن ہے، اس کَڑے وقت میں آپ کے علاوہ کوئی اور اسے نظر نہ آیا جس کے پاس جاکر پناہ لیتی ۔ اپنے بُھوکے بچوں کو آپ کے پاس لائی ہے۔ وہ بھوک سے اس طرح بلبلا رہے ہیں جیسے کسی جانور کے بچے چیختے ہیں۔یہ سُن کر حاتم طائی نے کہا : اسے جلدی سے میرے پاس لاؤ۔میں نے کہا: ہمارے اپنے بچے بُھوک سے مرے جارہے ہیں،انہیں دینےکیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں تو پھر بیچاری پڑوسن اور اس کے بچو ں کی ہم کیا مدد کریں گے؟ حاتم طائی نے کہا: خاموش رہو، اللہتَعَالٰی  ضرور تمہارا اور ان سب کا پیٹ بھرے گا ۔ جاؤ! جلدی سے اس دُکھیاری ماں کو اندر بُلا لو ۔میں اسے بُلا لیا۔ اس غریب نے دو بچے اپنی گود میں اُٹھائے ہوئے تھے اور چار بچے اس سے لپٹے اس کے پیچھے آرہے تھے۔ حاتم طائی نے انہیں کمرے میں بٹھایا اور اپنا ایک عُمدہ جانور ذبح کرکے آگ جلائی۔ جب شُعلے بُلند ہونے لگے توچُھری لے کر اس کی کھال اُتا ری پھر اس عورت کی طرف چُھری بڑھاتے ہوئے کہا :کھا ؤ!اوراپنے بچوں کو بھی کھلاؤ پھر مجھ سے کہا:تم بھی کھا ؤ اور بچو ں کو بھی جگادو تاکہ وہ بھی اپنی بھوک مِٹا سکیں۔ ہماری پڑوسن تھوڑا تھوڑا گو شت کھا رہی تھی اس کی جھجک کو محسوس کرتے ہوئے حاتم طائی نے کہا : کتنی بری بات ہے کہ تم ہماری مہمان  (Guest)ہوکرتھوڑا تھوڑا کھا رہی ہو۔یہ کہہ کر وہ ہمارے قریب ہی ٹہلنے لگا ۔ ہم سب کھانے میں مصروف تھے اورحاتم طائی ہماری جانب دیکھ رہا تھا۔ ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا ،لیکن بخدا! حاتم طائی نے ایک بوٹی بھی نہ کھائی، حالانکہ وہ ہم سب سے زیادہ بھوکا تھا۔ صبح زمین پرہڈیوں اور کُھروں کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔(عیون الحکایات،۲/۲۴۰،ملخصا)