Book Name:Parosi Kay Huquq

خبر گیری فرماتے،اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہوجاتاتو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے ، اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہوجاتے توآپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہوکر اس کے حق میں مغفرت ونَجات کی دُعا فرماتے نیز اس کے اہلِ خانہ کو صبر کی تلقین کرتے اور انہیں تسلّی دیا کرتے ۔

 (معین الارواح ،ص ۱۸۸،بتغیر)

میٹھی میٹھی اسلامی  بہنو!سنا آپ نے کہ پڑوسیوں کے حقوق کے مُعاملے میں ہمارے بُزرگانِ دین کا انداز کس  قدر شاندار تھا کہ جن کےحُسن سُلُوک کی برکتیں نہ صرف مسلمان پڑوسیوں کو میسر تھی، بلکہ غیر مسلمNon muslim))پڑوسی بھی ان کےحُسنِ سُلُوک سے بے حد مُتاثر تھے،باوجود یہ کہ ان کا پڑوسی انہیں اذیت دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا مگر یہ حضرات صبر و رضا کے پیکر بن کر پڑوسی کی جانب  پہنچنے والی اَذِیتوں کو برداشت کرتے ،انہیں عید کی خُوشیوں میں اپنے ساتھ شریک کرتے حتّٰی کہ پڑوسی کےانتقال کے بعد اس کے جنازے میں تشریف لے جاتے،اس کے حق میں دعائے مغفرت فرماتے اور اس کے اَہلِ خانہ کو صبرکی تلقین فرماتے اور یہی اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہیں۔ افسوس! صد افسوس! آج ہر شخص اپنے حُقُوق  کیلئے تو آواز بلند کرتا ہے مگراپنے پڑوسیوں کے حقوق کی بالکل  پروا نہیں کرتا، ہم خود تو کثیر نعمتوں سے فیضیاب ہوتے اور مرغن غذاؤں پر ہاتھ صاف کرتے  ہیں،لیکن ہمارے پڑوسی کن حالات سے گزرتے ہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، اگر ہمارا کوئی ضرورت مند پڑوسی ہم سے کسی چیز کا ہی سوال کربیٹھے تو اس کی حاجت روائی پر قدرت کے باوجود بھی ہم کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں بسا اوقات تو انتہائی نارواں سلوک سے پیش آتے ہیں،اسی طرح بعض نادانوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپناکچرا مثلاً پھلوں یا سبزیوں کے چھلکے،قربانی کے جانور کا خون،اس کی دُم یا چھیچھڑے وغیرہ پھینکنے،گندا پانی چھوڑ نے،بلا اجازت اس کے گھر میں جھانکنے،شادی یادیگر تقریبات پر گانے Songs)) چلانے،فائرنگ یا آتش بازی کرنے،اس کے گھر یا دُکان کے آگےبلا وجہ رُکاوٹ