Book Name:Durood-o-Salaam Kay Fazail

کرتے ہوں  اور مسلمانوں  کو بھی اُس کا حُکم دیا گیا ہوتو وہ صِرف اورصرف آقائے دوجَہان  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پردُرُود بھیجنا ہے۔ جس طرح ہِلالِ عید(عیدکےچاند) پر سب کی نظریں  جمع ہوجاتی ہیں  اِسی طرح مَدینہ کے چاند پر ساری مَخلُوق کی اور خُودخالق کی بھی نظر ہے۔ (شانِ حبیب الرحمن، ص۱۸۳ ملخصاً)

اگر کوئی اپنا بھلا چاہتا ہے

 

اسے چاہے جس کو خدا چاہتا ہے

درود ان پہ بھیجو سلام ان پہ بھیجو

 

یہی مومنوں سے خدا چاہتا ہے

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                                                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہاللہعَزَّ  وَجَلَّ  اورفِرِشتوں  کےدُرُودبھیجنے کا ذِکر کرنے کےساتھ ساتھ ہمیں   بھی دُرُودوسلام بھیجنے کا حکم دیاگیا۔ یہاں یہ بات ذِہن نشین(Memorize) رکھئے کہ اگرچہ ایک ہی لَفْظ کی نِسبتاللہعَزَّ  وَجَلَّ ، فِرِشتوں  اورمُومنین کی طرف کی گئی ہے، لیکن جس کی طرف نسبت کی گئی ہےاس کےاِعتبارسےمعنی مختلف ہیں۔

امام بَغَوِیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا دُرُود رَحمت نازِل فرمانا ہے ، جبکہ ہمارے  دُرُودسےمراد  دُعائے رَحمت کرنا ہے۔(شرح السنۃ للامام بغوی، کتاب الصلاۃ ،باب الصلاۃ علی النبی،۲/ ۲۸۰)یہاں ایک سوال پیدا ہوتا کہ جب اللہعَزَّ  وَجَلَّ   خود اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر رحمتیں نازل فرمارہا ہےتو پھر ہمیں کیوں درودِ پاک پڑھنے یعنی  دُعائے رحمت  کرنے کا حکم دیا،کیونکہ مانگی تووہ چیز جاتی ہے جو پہلے سے حاصل نہ ہو،  جب پہلے ہی سے رَحمتیں   اُتر رہی ہیں  ، پھر مانگنے کا حُکم کیوں  دیا؟

مُفْتی احمدیار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس کی وضاحت  (Explain) کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے دُرُود و سلام پڑھنے والو!ہرگز ہر گز یہ گُمان بھی نہ کرنا کہ ہمارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ہماری رَحمتیں  تُمہارے مانگنے پرمَوقُوف ہیں  اور ہمارے محبوب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ تُمہارے دُرُود و سلام کے مُحتاج ہیں۔ تم دُرُود پڑھو یا نہ پڑھو،اِن پر ہماری رَحمتیں برابر برستی ہی رہتی ہیں۔تُمہاری پیدائش اورتُمہارا دُرُود و