Book Name:Durood-o-Salaam Kay Fazail

جواب یہ ہے کہ بُزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبینہماری طرح دُنیا کی مَحَبَّت میں  گرفتار  نہیں   تھے اور نہ ہی ہماری طرح فضول گوئی ان کا شیوہ تھا، یوں ان کے پاس ضروری کام مثلاًکھانے پینے اور حلال کمانے کے بعد بھی کافی وقت ہوتا،جسے وہ درود شریف پڑھتے ہوئے گزارتے تھے، ہم لوگوں  نے شیطان کے فریب میں  آکر اِس چند روزہ زِندگی ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور ہر وَقت ،ہر لمحہ اس فانی دُنیا کی آرائشوں  اور آسائشوں  میں  گم ہیں  ۔ اَفسوس!قَبرکی طَوِیل زِندگی اور آخرت کی کڑی اور کَٹھن ترین منزل کی طرف ہماری بالکل توجُّہ  نہیں۔بُزرگانِ دِین اوراَولیائے کاملینرَحْمۃُ اللّٰہ تَعالٰی عَلَیْہِم اَجْمَعِیْن کواس بات کا مُکمل احساس رہتا کہ یہاں  کی زِندگی چند روزہ ہے، یہ آناً فاناً ختم ہوجائے گی۔ جو کچھ ہے وہ مرنے کے بعد والی اَبَدی زِندگی ہے۔ اَولیائے کرام اور بُزرگانِ دین کو یہ احساس بھی ہوتاکہ دُنیا کی مُختصر سی زِندگی پر ہی بعد والی طویل زِندگی کا اِنحصار ہے۔ اگر دُنیا کی زِندگی عیش پرستی اور نافرمانی میں  نہ گزاری تو مرنے کے بعدرَحمتِ خداوَندی سےاَبدی وسَرمَدی نعمتوں  کی قوِی اُمیدہے۔ جب یہاللہوالے اپنی زِندگی اِسلام کے پاکیزہ اُصولوں  اور پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سُنَّتوں اورآپ کی ذات ِ طَیِّبَہ پردُرُود ِپاک پڑھنے میں  گزار تےہیں تو ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَبھی مشکلات ومصائب میں انہیں تنہا نہیں چھوڑتےبلکہ مصیبت کےوقت  پہنچ  کران کی مدد فرماتے ہیں،آئیے! اس بارے  میں  ایمان افروز واقعہ سنتے ہیں، چنانچہ 

جہاز ڈوبنے سے بچ گیا

حضرت شیخ موسیٰ ضریررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں  ایک قافلے کے ساتھ بحری جہاز میں  سفر کر رہا تھا کہ اچانک جہاز طُوفان کی زَد میں  آگیا،یہ طُوفان قَہرِ خُداوَندی بن کر جہاز کو ہِلانے لگا ، ہم یقین کر بیٹھے کہ چند لمحوں  بعد جہاز ڈوب جائے گا اور ہم سب لقمۂ اَجل بن جائیں  گے  ۔ اسی عالَم میں  مجھ پر