Book Name:Farooq e Azam ki Aajazi

فرمان ’’ صدائے مدینہ دِکھائے مدینہ‘‘ بھی سُنایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ میرا ذِہْن بن گیا اور حاضریِ مدینہ کی اُمید پر اگلے ہی دن میں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔صدائے مدینہ کیا لگانی شروع کی مجھ پر تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکا کرم ہو گیا۔میرے تو وارے ہی نیارے ہو گئے، قسمت کا ستارا یُوں چمکا کہ اسی سال مجھے بارگاہِ مصطفیٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حاضری کا شرف حاصل ہو گیا۔ کرم بالائے کرم یہ کہ صدائے مدینہ کی برکت سے میرے بڑے بھائی کو بھی حج کی سعادت نصیب ہو گئی،دورانِ حج شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  سے بیعت ہونے کا شرف بھی مل گیا۔شاید یہ مدینے شریف کی حاضری اورایک ولیِ  کامل سے بیعت کی برکت تھی کہ میرے بھائی جو پہلے  نمازوں میں سُستی کا شکار تھے، لیکن اب تمام گناہوں سے توبہ کر کے نیکیوں کی جانب مائل ہونے لگے۔ باجماعت نماز کا اِہتمام کرنے لگے ۔ داڑھی شریف کی بھی نیّت کر لی ۔ حج سے واپسی آنے کے کم وبیش دو ماہ بعدجبکہ ایک عزیز کی شادی میں شریک تھے ، بارات آنے ہی والی تھی لیکن جُونہی نماز کا وقت ہوا سب کو بآوازِ بلند نماز کی دعوت دی اور مسجد کی جانب چل دیے ۔ جب وضو کے لئے وضو خانے پر پہنچے تو اچانک دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے گِر پڑے ۔نمازیوں نے آگے بڑھ کر اُٹھایا اور مسجد میں لِٹادیا۔ مسجد میں لِٹاتے ہی ان کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی ۔ وہاں موجود سبھی لوگ بھائی جان کی اس ایمان افروز وفات پر افسوس کے ساتھ ساتھ رشک کرنے لگے ۔

لگا فجر میں بھائی  گھر گھر میں جا کر

ذرا دِل لگا کر "صدائے مدینہ"

(وسائلِ بخشش مُرمّم،ص369)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب!                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد