Book Name:Faizan e Khadija tul Kubra

تیرے نام پر سر کو قُربان کر کے

تیرے سر سے صدقہ اُتارا کروں میں

یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں

تیرے         نام       پر              سب           کو              وارا          کروں         میں(1)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

     میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!اس واقعہ سےیہ مدنی پُھول بھی ملاکہ عورت کو تنگدستی وخُوشحالی ہر حال میں اپنے شوہر کا ساتھ دینا چاہیے اور بِلاوجہ لڑنے جھگڑنے اورشکوہ وشکایات کرنے کے بجائے  ہمیشہ صبروشکر سے کام لینا چاہیے بلکہ نیک سیرت اور مثالی بیوی کی خُوبی تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے شوہر کی نعمتوں کی شکر گُزار رہتی ہے اور کبھی اس کے اِحسانات کا اِنکار کرکے ناشکری نہیں بنتی ،وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ شوہر میرےلئے ایک مضبوط سہارا اور اللہعَزَّ  وَجَلَّ کی نعمت ہے، وہی میری ضرورتوں کو پُورا کرتا ہے اور اسی کی وجہ سے مجھے اَولاد کی نعمت ملی ہے ۔

    رحمتِ عالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے عورتوں کو اپنے شوہروں کی ناشکری سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہے ۔ چُنانچہ حضرت اَسماء بِنتِ یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ سرکارِ دوعالم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمہم عورتوں کے پاس سے گُزرے تو ہمیں سلام کیا اور فرمایا: احسان کرنے والوں کی ناشکری سے بچنا ، ہم نے عرض کی کہ احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مُراد ہے ؟ فرمایا: ممکن تھا کہ تم میں سے کوئی عورت طویل  عرصے تک بغیر شوہر کے اپنے والدین کے پاس بیٹھی رہتی اور بُوڑھی ہوجاتی لیکن اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نےاسے شوہر عطا فرمایا اور اس کے ذریعے مال اور اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا اس کے باوجود جب وہ غصے میں آتی ہے تو کہتی ہے : میں نے اس سے کبھی بھلائی

۔۔۔۔۔۔۔

[1]...سامانِ بخشش، ص۱۰۲.