Book Name:Achay Mahol ki Barkatain Ma Dosti ki Sharait

لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اُمّت کے اِن مُحسنین اور خیرخواہ حضرات کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا کر ان پر بے جا اِعتراض اور ناحق طَعْن و تشنیع کرتے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ علماءِ کِرام دِینِ اسلام کے لئے سُتُون کی حَیْثِیَّت رکھتے ہیں۔آیئے ! عُلماءسےمُتَعَلِّق  قرآن و حدیث کی روشنی میں کچھ مدنی پُھول سُنتے ہیں تاکہ ہمارے دل میں عُلَماءکی مَحَبَّت و چاہت اور قَدر و مَنْزِلَتْ مزید بڑھ جائے اور جو لوگ عُلَماء کے مقام و مرتبے سے ناواقف ہیں ،اُن کے دل میں بھی علمائے کِرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام کی اَہَمِّیَّت  اُجاگَر ہو اور وہ بھی ان کی قدر کرنے میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ ان کی قدر و مَنْزِلَتْ کو پہچانتے ہوئےان کی صُحْبَت میں بیٹھنے،ان  کا ادب و احترام کرنے ، ان پر اعتراض کرنے سے بچنے اور دِین و دنیا کے تمام مُعاملات میں ان سے رَہْنُمائی حاصل کرنے میں دونوں جہاں  کی بھلائیاں ہیں۔

دِین کے رَہْنُما

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ پارہ 14 سُورۃُ النَّحْل، آیت نمبر 43  میں ارشاد فرماتا ہے :

فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳) (پ۱۴،النحل:۴۳)

ترجَمۂ کنز الایمان:تو اے لوگو عِلْم والوں سے پوچھو اگر تمہیں عِلْم نہیں۔

مُفَسِّرِ شَہِیر،حکیْمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”حدیث شریف میں ہے بیماریِ جَہْل کی شِفاء عُلَماءسے دریافت کرنا ہے۔“

آیتِ کریمہ اور اس کی تفسیر سے عُلَماء کا مقام و مرتبہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے اِن مبارک ہستیوں کو مَرْجَعِ خَلَائِق اور دِین کے عظیم رَہْنُما کی حَیْثِیَّت دی گئی ہے، تفسیر کی مُتَعَدَّد کتابوں میں لکھا ہے کہ اس آیتِ کریمہ میں اِشارہ ہے کہ جو مسائل معلوم نہ ہوں اُن کے لئے