اللہ والوں کی تعلیمات

اسلام اور عورت

اللہ والوں کی تعلیمات

*اُمِّ میلاد عطّاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2022ء

ماہِ ربیعُ الآخر ہمارے ہاں کئی ناموں سے پہچانا جاتا ہے ، گیارھویں کامہینا ، بڑی گیارھویں کا مہینا ، بڑے پیر صاحب کا مہینا ، غوثِ پاک کا مہینا وغیرہ۔ یعنی اس ماہِ مبارک کو پیرانِ پیر ، روشن ضمیر حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ سے نسبت ہے اور عمومی طور پر ہمارے ہاں اس ماہِ مقدس میں حضورِ غوث پاک اور دیگر اولیاء اللہ کی شان و عظمت اور تعلیمات کو بیان کیا جاتاہے۔

ہم اولیائے کرام کی زندگانیوں ، تعلیمات اور عادات پر غور کریں تو تقریبا ًسبھی اولیائے کرام کی سیرت میں جو چیز مشترک ملتی ہے وہ ہے  ” خوفِ خدا “

 ” خوفِ خدا “  کے بارے میں اللہ رب العزّت کا فرمان ہے : ( وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ  ( ۱۷۵ )  ) ترجَمۂ کنزُ الایمان : اورمجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔[1](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسی طرح حضور نبیِّ اکرم ، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بھی فرمان ہے کہ’’ رَاْسُ الْحِکْمَۃِ مَخَافَۃُ اللّٰہِ “  یعنی حکمت کا سر چشمہ اللہ پاک  کا خوف ہے۔  [2]

ایک موقع پر فرمایا کہ  ” اللہ پاک فرمائے گا کہ اسے آگ سے نکالو جس نے مجھے کبھی یاد کیا ہو یا کسی مقام میں میرا خوف کیا ہو۔ “  [3]

ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ خوفِ خدا تو ایک قلبی کیفیت کانام ہے ، ہمیں کس طرح معلوم ہو کہ ہمارے دل میں ربّ تعالیٰ کا خوف موجود ہے ؟ تو یاد رکھئے کہ عموماً ہر کیفیتِ قلبی کی کچھ علامات ہوتی ہیں چنانچہ جب ہمارے دل خوفِ خدا سے لرزیں گے تو

 ( 1 ) ہماری زبان جھوٹ ، غیبت ، فضول گوئی اور گالی گلوچ کی بجائے اللہ و رسول کے ذکر ، تلاوتِ قراٰن اور علمی گفتگو میں مشغول ہوگی ۔

 ( 2 ) پیٹ میں حرام لقمہ داخل نہیں ہوگا۔

 ( 3 ) آنکھ حرام دیکھنے سے بچے گی اور جسے دیکھنا جائز ہے اس کی طرف رغبت سے نہیں بلکہ حصولِ عبرت کے لئے دیکھے گی ۔

 ( 4 ) ہاتھ حرام کام ، چوری ، ظلم اور گناہ کی طرف نہیں اٹھے گا بلکہ نیکی میں تعاون ، کمزور اور غریب کی مدد کے لئے بڑھے گا۔

 ( 5 ) قدم گناہوں کے اڈوں کی جانب نہیں بلکہ اللہ کے گھر کی جانب اٹھیں گے۔

 ( 6 ) دل مسلمانوں سے بغض ، کینہ اور حسدجیسی گندگیوں سے پاک ہوگا ۔

 ( 7 ) ہر عمل سے مقصود صرف اللہ اور اس کے رسول کی رضاہوگی ۔

 ( 8 ) کان غیبت ، چغلی اور گانے باجوں کی آوازوں سے راضی نہ ہوں گے بلکہ ذکرِ خدا و رسول سننے کو للچائیں گے۔

یادرکھئے ! اللہ کریم کی خفیہ تدبیر ، اس کی بےنیازی ، اُس کی ناراضی ، اس کی پکڑ ، اس کی طرف سے دیئے جانے والے عذاب ، اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوف زدہ رہنے کا نام خوفِ خدا ہے۔ یاد رہے ! کہ صرف قبر وحشر اور حساب ومیزان وغیرہ کے حالات سن کر یا پڑھ کر محض چند آہیں بھر لینا یا اپنے سر کو چند مرتبہ اِدھر اُدھر پِھرا لینا اور پھر کچھ ہی دیر بعد دوبارہ گناہوں میں جاپڑنا خوفِ خدا کے لئے کافی نہیں بلکہ خوفِ خدا کے عملی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے گناہوں کا ترک کردینا اور اطاعت ِ الٰہی میں مشغول ہوجانا بھی اُخروی نجات کے لئے بے حد ضروری ہے۔

خوفِ خدا اوررب العزّت کے غضب و جلال سے ڈرنے کے باعث اللہ کے نیک بندوں کی کیا کیفیات ہوتی تھیں ان کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے :

حافظُ الحدیث حضرت سَیِّدُنا یزید بن ہارون واسطی رحمۃُ اللہ علیہ دن رات خوفِ الٰہی سے اس قدر رویا کرتے تھے کہ مستقل طور پر آشوبِ چشم کی شکایت پیدا ہوگئی یہاں تک کہ آنکھوں کی خوبصورتی و روشنی دونوں جاتی رہیں۔[4]

سیّدنا امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : خوفِ خدا نے مجھے کھانے پینے سے روک دیا ، اب مجھے کھانے پینے کی خواہشات نہیں ہوتیں ۔  [5]

حضرت یحییٰ بن عبدالملک رحمۃُ اللہ علیہ بہت بارعب شیخُ الحدیث تھے ، مگر آپ پر خوفِ خداوندی کا بڑا غلبہ تھا۔ آپ دن رات روتے رہتے یہاں تک کہ آپ کی آنکھوں میں ہمیشہ آشوبِ چشم جیسی سرخی رہتی تھی۔ بعض لوگوں نے عرض کی : حضور !  آپ کی آنکھوں کا علاج یہی ہے کہ آپ رونا چھوڑ دیں۔ تو آپ نے فرمایا ” اگر یہ آنکھیں خوفِ خداوندی سے رونا چھوڑ دیں تو پھر ان آنکھوں میں کون سی بھلائی باقی رہ جائے گی ؟ “  [6]

حضرت ابو بِشر صالح مُرّی  رحمۃُ اللہ علیہ بڑے نامو رمحدث تھے۔ آپ بہت ہی سحر بیان واعظ بھی تھے۔ وعظ کے دوران خود ان کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ خوفِ الٰہی سے کانپتے اور لرزتے رہتے اور اس قدر پھوٹ پھوٹ کر روتے جیسے کوئی عورت اپنے اکلوتے بچّے کے مر جانے پر روتی ہے۔ کبھی کبھی تو شدتِ گریہ اور بدن کے لرزنے سے آپ کے اعضاء کے جوڑ اپنی جگہ سے ہل جاتے تھے ۔ اور آپ کے بیان کا سننے والوں پر ایسا اثر ہوتا کہ بعض لوگ تڑپ تڑپ کر بے ہوش ہو جاتے اور بعض انتقال کر جاتے۔ آپ کے خوفِ خدا کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی قبر کو دیکھ لیتے تو دو دو ، تین تین دن مبہوت وخاموش رہتے اور کھانا پینا چھوڑ دیتے ۔[7]

حضرت زُرارہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نہایت ہی عابد و زاہد اور خوفِ الٰہی میں ڈوبے ہوئے عالم ِباعمل تھے۔ تلاوتِ قراٰن کے وقت وعید وعذاب کی آیات پڑھ کر لرزہ براندام بلکہ کبھی کبھی خوفِ خدا سے بے ہوش ہوجاتے تھے ۔ ایک دن فجر کی نماز میں جیسے ہی آپ نے ان آیتوں ( فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِۙ (۸) فَذٰلِكَ یَوْمَىٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌۙ (۹) )  [8] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)    کی تلاوت کی تو نماز کی حالت میں ہی آپ پر خوف ِ الٰہی کا اس قدر غلبہ ہوا کہ لرزتے کانپتے ہوئے زمین پر گر پڑے اور آپ کی روح پرواز کر گئی۔[9]

آہ ! کثرتِ عصیا ں ہائے ! خوف دوزخ کا

کاش ! اِس جہاں کا میں نہ بشر بنا ہوتا

شور اُٹھا یہ محشر میں خُلد میں گیا عطاّرؔ

گر نہ وہ بچا تے تو نار میں گیا ہوتا[10]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت  ( دعوتِ اسلامی )  اسلامی بہن



[1] پ 4 ، اٰلِ عمرٰن : 175

[2] شعب الایمان ، 1/470 ، حدیث : 744

[3] شعب الایمان ، 1/469 ، حدیث : 740

[4] اولیائے رجال الحدیث ، ص263

[5] مکاشفۃ القلوب ، ص197

[6] اولیائے رجال الحدیث ، ص257

[7] اولیائے رجال الحدیث ، ص151

[8] ترجَمۂ کنزُ الایمان : پھر جب صور پھونکا جائے گاتو وہ دن کرّا  ( سخت )  دن ہے۔  ( پ29 ، المُدَّثِّر : 8 ، 9 )

[9] اولیائے رجال الحدیث ص123

[10] وسائل بخشش ، ص160


Share

Articles

Comments


Security Code