ذکرِ شفاعت کیجئے!

اشعار کی تشریح

ذکرِ شفاعت کیجیے!

*مولانا راشد علی عطاری مدنی

حِرزِ جاں ذِکرِ شَفاعت کیجیے

نار سے بچنے کی صُورت کیجیے  [1]

الفاظ و معانی:حِرْزِ جاں:بہت عزیز۔ نار:آگ  ( مراد جہنّم ) ۔ صُورت کیجیے: کوئی تدبیر کیجیے ، وسیلہ نکالئے / اپنائیے ۔

شرح:امامِ عشق و محبت ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس شعر میں اہلِ ایمان کو جان کی اَمان کا ذریعہ بتا رہے ہیں کہ شفیعِ اعظم رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شفاعت کا کثرت سے ذکر کیا کرو کیونکہ یہ ذکر مؤمنین کی رُوحوں کو تسکین اور دِلوں کو راحت بخشنے والا ہے۔ فضلِ خُدا اور شفاعتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ہی مسلمان جہنّم کی آگ سے نجات پائیں گے ، اس لئے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ اے مومنو! ذکرِ شفاعت کرکے جہنّم اور اُس کی خوفناک آگ سے اپنے آپ کو بچانے کی تدبیر کرو۔

امیرِاہل سنت حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اِسی بات کو آسان اور شاندار پیرائے میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ:اِس شعر میں میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے عاشقانِ رسول! شَفاعتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خوب تذکرہ کرتے رہئے گویا اپنے لئے اسے مثلِ پناہ گاہ بنا لیجئے کہ ”ذکرِ شَفاعت“ آخِرت کی بھلائی اور عذابِ جہنّم سے نجات کا وسیلہ بن جائے۔[2]

عقیدۂ شفاعت: اہلِ اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ ربِّ رحیم نے ہمارے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو منصبِ شفاعت عطا فرمادیا ہے۔ شفاعت کی تمام تَر قسمیں مثلاً شَفاعَت بِالوَجاہَۃ ، شَفاعَت بِالْمَحَبّۃ اور شَفاعَت بِالْاِذْن آپ کے لیے ثابت ہیں۔ ان میں سے کسی شفاعت کا بھی اِنکارکرنے والا گمراہ ہے۔[3]

 شفاعتِ کُبریٰ اور کلامِ رَضا: شفاعتِ کبریٰ حضور ِانور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خصائصِ کریمہ میں سے ہے کہ قیامت کے دن جب تک آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفاعت کادروازہ نہ کھولیں گے کسی کوبھی شفاعت کرنے کی مَجال نہ ہوگی ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دیگر تمام شفاعت کرنےوالے بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہی دربار میں شفاعت لائیں گے اور بارگاہِ خُدا میں صرف شفیعِ اَعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی شفیع ہوں گے۔چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ پاک  ( میں اُن کی شفاعت کا مالک ہوں )    [4] کا ایک لطیف معنی بیان فرماتے ہیں کہ خدائے ذوالعرش کی بارگاہ میں بلاواسطہ شفاعت قراٰن عظیم اور اِس حبیب اُمیدگاہ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سوا کسی کے لئے نہیں ہےباقی شفیع یعنی ، ملائکہ ، انبیا ، اولیا ، علما ، حُفّاظ ، شہدا ، حُجّاج اور صُلحا ، تو وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں شفاعت کریں گے ان کی رسائی انہیں تک ہوگی ان کی شفاعت انہیں کے حضورہوگی اور  پھر جن کا ذکر ان حضرات نے کیا ہو اور جن کاذکرنہ کیا ہو ان سب کے لئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہی اپنے ربّ کی بارگاہ میں شفاعت کریں گے اور ہمارے نزدیک یہ معنی حدیثوں سے مؤکَّد  ( پختہ ) ہے وَلِلّٰہِ الْحَمْد۔  [5]

اسی بات کو امامِ اہلِ سنّت ، اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ منظوم انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:

سب تُمہارے در کے رَستے                                            ایک تم راہِ خُداہو

سب تمہارےآگے شافِع        تم حضورِکبرِیا ہو

سب کی ہے تم تک رَسائی       بارگَہ تک تم رَساہو  [6]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  شعبہ کتب اعلیٰ حضرت ، المدینۃُ العلمیہ کراچی



[1] حدائق بخشش ، ص194

[2] نیکی کی دعوت ، حصہ اوّل ، ص453

[3] بہار شریعت ، 1 / 72ملخصاً

[4] ترمذی ، 5 / 352 ، حدیث:3633

[5] المعتقدالمنتقد مع حاشیۃ المعتمدالمستند ، ص240

[6] حدائقِ بخشش ، ص342


Share

Articles

Comments


Security Code