معراج  کی  حکمتیں / جمعِ قراٰنِ پاک

العلم نور

معراج کی حکمتیں

فرمان علی عطّاری مدنی

ماہنامہ رجب المرجب 1440

مشہور مُحاوَرہ ہے کہ “ فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَایَخْلُو عَنِ الْحِکْمَۃِ “ یعنی حکیم کا کوئی بھی کام حِکمت سے خالی نہیں ہوتا ، اللہ پاک کا ایک صِفاتی نام حکیم بھی ہے ، اس کے ہر کام میں بےشُمار حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جنہیں سمجھنے سے ہماری عقلیں قاصِر (بے بس) ہوتی ہیں۔ اللہ  پاک نے اپنے مَدَنی حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اعلانِ نَبُوّت کے گیارھویں سال یعنی ہجرت سے دو سال پہلے حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا  کے گھر سے ستائیسویں رجب پیر کی شب میں معراج کروائی۔ اس معراج میں کئی حکمتیں ہیں جن کا ہمیں مکمل علم نہیں۔ البتہ علمائے کرام نے جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں ، ان میں سے 5 حکمتیں ملاحظہ کیجئے :

(1)سارے مراتب طے کروائےحکیمُ الْاُمَّت مُفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : وہ تمام مُعْجِزَات اور دَرَجات جو انبیائے کرام  عَلیہمُ الصّلٰوۃ والسَّلام  کو علیحدہ علیحدہ عطا فرمائے گئے ، وہ تمام بلکہ اُن سے بڑھ کر (کئی مُعْجِزَات) حُضُورِ پُرنور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو عطا ہوئے۔ اس کی بہت سی مِثالیں ہیں : حضرتِ مُوسیٰ  علیہ السَّلام  کو یہ دَرجہ مِلا کہ وہ کوہِ طُور پر    جا کر رَبّ (کریم) سے کَلام کرتے تھے ، حضرتِ عیسیٰ  علیہ السَّلام  چوتھے آسمان پر بُلائے گئے اور حضرتِ اِدْرِیس  علیہ السَّلام  جنَّت میں بُلائے گئے توحُضُورِانور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو مِعْراج کرائی گئی ، جس میں اللہ پاک سےکلام بھی ہوا ، آسمان کی سیر بھی ہوئی ، جنَّت و دوزخ کا مُعَاینہ بھی ہوا ، غرضیکہ وہ سارے مَرَاتِب ایک ہی مِعْرَاج میں طے کرادئیے گئے۔ (شانِ حبیب الرّحمٰن ، ص107ملخصاً)

(2)ایمان بِالغیب کا مُشاہدہ کیامعراجِ مصطفےٰ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ تمام پیغمبروں نے اللہ (کریم) کی اور جنّت و دوزخ کی گواہی دی اور اپنی اپنی اُمَّتوں سے اَشْہَدُ اَنْ لَّا ۤاِلٰہَ اِلَّا اللہ پڑھوایا ، مگر اُن حضرات (انبیائے کرام) میں سے کسی کی گواہی نہ تو دیکھی ہوئی تھی اور نہ ہی سُنی ہوئی اور گواہی کی انتہا دیکھنے پر ہوتی ہے ، تو ضرورت تھی کہ ان انبیائے کرام ( عَلیہمُ الصّلٰوۃ والسَّلام ) کی جماعَتِ پاک میں سے کوئی ایسی ہستی بھی ہو کہ جو ان تمام چیزوں کو دیکھ کر گواہی دے ، اُس کی گواہی پر شہادت کی تکمیل ہوجائے۔ یہ شہادت کی تکمیل حُضُور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ذات پر ہوئی۔ (کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے تمام چیزوں کو اپنی مُبارک آنکھوں سے مُلاحظہ فرمایا)۔ (شانِ حبیب الرّحمٰن ، ص107 ملخصاً)

(3)مالکِ کونین نے اپنی سلطنت دیکھی اللہ پاک نے اپنے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو تمام خزانوں کا مالک بنایا ہے ، اللہ پاک پارہ30 ، سُوْرَۃُ الْکَوثَر کی آیت نمبر1میں اِرشاد فرماتا ہے : (اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) ) تَرْجَمَۂ کنزُ الایمان : اے  محبوب  بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  حضور مالکِ کونین ، شبِ اسریٰ کے دولہا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  فرماتے ہیں : میں سورہا تھا کہ زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے دونوں ہاتھوں میں رکھ دی گئیں۔ (بخاری ، 2 / 303 ، حدیث : 2977) رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اِرشاد فرمایا : میں (اللہ پاک کے خزانوں کا) خازِن ہوں۔ (مسلم ، ص512 ، حدیث : 1037)حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اللہ پاک کی عطا سے اس کی تمام سلطنت کے مالِک ہیں ، اسی لئے جنَّت کے پتّے پتّے پر ، حُوروں کی آنکھوں میں غرضیکہ ہر جگہ لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ لکھا ہوا ہے : یعنی یہ چیزیں اللہ (کریم) کی بنائی ہوئی ہیں اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کو دی ہوئی ہیں۔ (تو معراج کروانے میں) اللہپاک کی مرضی یہ تھی کہ (دوجہانوں کے خزانوں کے) مالِک کو اس کی ملکیت دِکھا دی جائے۔ (شانِ حبیب الرّحمٰن ، ص107 ملخصاً) چنانچہ اس لئے معراج کی رات یہ سیر کروائی گئی۔

(4)سلسلۂ شفاعت میں آسانی کل بروزِ قِیامت نبیِّ رحمت ، شفیعِ اُمّت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے شفاعت فرمانی ہے ، بلکہ شفاعت کا دروازہ آپ سے کھلنا ہے ، اللہ پاک نے اپنے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو کائنات کے عجائبات ، جنّت کے درجات اور جہنّم کا مُشاہدہ کرادیا ، اس کے علاوہ اور بھی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں تاکہ قِیامت کے ہولناک دن کی ہیبت آپ پر طاری نہ ہوسکے ، پورے عزم و اِستقلال کے ساتھ شفاعت کر سکیں۔ (معارج النبوۃ ، ص80ملخصاً)

(5)وحی کی تمام اقسام کا شرف وحی کی ایک قسم یہ ہے کہ اللہ پاک بِلاواسطہ کلام فرمائے اور یہ وحی کی سب سے اعلیٰ قسم ہے ، معراج کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ سرورِ کائنات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تمام اقسامِ وحی سے شرف پائیں ، کُتبِ تفاسیر میں لکھا ہے کہ “ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ والی آیات جو کہ سُوْرَۃُ الْبَقَرہ کی آخری 2 آیات ہیں ، حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے معراج کی رات اللہ پاک سے بِلاواسطہ سُنی ، اسی طرح کچھ سُورَۃُ الضُّحیٰ اور کچھ سُورَۂ اَلَم نَشْرَح معراج کی رات سُنی۔

(روح البیان ، پ25 ، الشوریٰ ، تحت الآیۃ : 51 ، 8 / 345)


Share

معراج  کی  حکمتیں / جمعِ قراٰنِ پاک

قراٰنِ پاک دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے۔قراٰنِ کریم کی آیات حالات و واقعات کے مطابق 23 سال کے عرصے میں نازل ہوئیں، نزولِ قراٰن کی کیفیت یہ تھی کہ ایک سورت کی کچھ آیات نازل ہوتیں ،پھر دوسری سورت کی کچھ آیات اُترتیں، آیات نازل ہونے کے بعد نبیِّ اکرم، شفیعِ مُعَظَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم متعیّن فرماتے کہ کون سی آیات کس سورت کی ہیں،لہٰذا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکےفرمان کےمطابق آیت یا کئی آیات کو اُس سورتِ مبارکہ میں شامل کردیا جاتا۔ (مستدرک،ج 3،ص63، حدیث:3325) قراٰنِ پاک کِن چیزوں پر تحریر تھا؟ عہدِ رسالت میں قراٰنِ پاک نازل ہونےکا سلسلہ جاری تھا،س لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے کتابی صورت میں جمع نہیں فرمایا۔ اُس وقت نازل ہونے والی آیات کو صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان اپنے سِینوں میں محفوظ کرتے اور ان پاکیزہ نُفوس میں سے منتخب افراد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم سے مُتَفَرِّق کاغذوں، پتھر کی تختیوں ، بکری، دُنبے کی کھالوں، اُونٹوں کے شانوں اور پسلیوں کی ہڈیوں وغیرہ پرتحریر کرلیتے۔ (بخاری،ج3،ص398،حدیث:4986، اتقان،ج 1،ص181تا185) قراٰنِ پاک کو ایک جگہ جمع کرنے کا سبب نبوت کاجھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذّاب سے عہدِصِدّیقی میں جنگِ یمامہ ہوئی، اِس میں حُفّاظ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی کثیر تعداد شہید ہوگئی۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ صدیقی میں عرض کی کہ ”جنگِ یَمامہ میں بہت حفّاظ شہید ہوئے اور میں ڈرتاہوں کہ یوں ہی قراٰن متفرق پرچوں میں رہا اور حُفّاظ شہادت پاگئے تو بہت سا قراٰنِ کریم مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتا رہے گا، میری رائے ہے کہ آپ جمعِ قراٰن کا حکم فرمائیں۔“سیّدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو ابتدا میں اس میں تأمّل ہوا کہ جو فعل حضورِاقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے نہ کیا ہم کیونکرکریں۔ سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگرچہ حضورِ پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ کیا مگر وَاﷲ وہ کام خیرکا ہے، بِالآخر صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا بھی ذہن بن گیا اور عظیم قاریِ قراٰن صحابیِ رسول حضرت سیّدنا زیدبن ثابت اَنصاری رضی اللہ عنہ کو بُلا کر کتابُ اللہ کو جمع کرنے کا فرمانِ خلافت صادر فرمایا۔ حضرت سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کو بھی وہی شُبہ ہوا کہ جو کام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ کیا وہ ہم کیسے کریں۔ سیّدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں وہی جواب دیا کہ اگرچہ حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ کیا مگر وَاﷲ وہ کام خیرکاہے۔ یہاں تک کہ حضرت سیّدنا صدیقِ اکبر و فاروقِ اعظم و زید بن ثابت و جملہ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے اِجماع سے یہ مسئلہ طے ہوا اور قراٰنِ عظیم مُتفرّق جگہوں سے جمع کرلیا گیا۔ (بخاری،ج 3،ص399،حدیث: 4987، فتاویٰ رضویہ،ج 26،ص 450تا 452 ملخصاً)

تدوینِ قراٰن کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قراٰن پاک کا کوئی جُز، کوئی فِقْرہ اور کوئی لفظ ایسا نہیں جس کو جمع کرنے والوں نے چھوڑ دیا ہو، آج بھی مُحَقِّقِین اِس بات کا اِقرار کرتے ہیں کہ قراٰن ِ پاک دُنیاکی وہ واحد کتاب ہے کہ جس کا مَتْن آج تک اپنی اصلی حالت میں موجودہے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ذمّہ دار شعبہ فیضان اولیاوعلما،المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share