$header_html

Book Name:ALLAH Malik Hai

کھانا دے دیں۔ یہ بھی مدد مانگی *امام صاحِب سے ملتے ہیں، عالی جاہ! میں نماز پڑھ رہا تھا، یہ والی غلطی ہوئی، بتائیے! میری نماز ہو گئی یا نہیں ہوئی؟ شرعِی مشکل تھی، اِس کا حل امام صاحِب سے پوچھا۔ مدد ہی تو مانگ رہے ہیں۔ یونہی غور کرتے چلئے! ہم روزانہ سینکڑوں قسم کی مدد آپس میں ایک دوسرے سے مانگ بھی رہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد ہم کر بھی رہے ہوتے ہیں۔ پِھر اللہ پاک نے کیوں فرمایا:

وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۱۰۷) (پارہ:1، سورۂ بقرہ:107)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اور اللہ کے مقابلے میں تمہارا نہ کوئی حمایتی ہے اور نہ ہی مددگار۔

سمجھ لیجیے! غَیْرُ اللہ کی 2قسمیں ہیں: (1):ایک ہے: دُوْنِ اللہ۔ یعنی اللہ پاک کے دُشمن (2):دوسری قسم ہے: عِبَادُ اللہ یا اَوْلِیَاءُ اللہ۔ یعنی اللہ پاک کے بندے، اللہ پاک کے دوست۔

قرآنِ کریم میں جہاں جہاں بھی غیرُ اللہ کی مدد کا اِنْکار کیا گیا ہے، وہاں دُوْنِ اللہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔مطلب یہ بنے گا کہ اللہ پاک کا کوئی بھی دُشمن، اللہ پاک کے مقابلے میں کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔

یعنی *اللہ پاک چاہے کہ بندے کو شِفَا نہیں ملنی، اب کوئی غیرُ اللہ، دُوْنِ اللہ چاہے جتنی مرضی زور آزمائی کر لے، جتنے بھی جَتَن کر لے، وہ بندے کو شِفَا نہیں دے سکتا *اللہ پاک چاہے کہ بندے کو شِفَا ہونی ہے، کوئی غیرُ اللہ، دُوْنِ اللہ چاہے جو مرضی کر لے، بندے کو بیمار نہیں کرسکتا۔ لہٰذا یہ دُوْنِ اللہ اور عِبَادُ اللہ کا فرق ہمیشہ سامنے رکھا کیجیے! اس کی ایک مثال قرآنِ کریم سے سنیے! اللہ پاک نے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:بیشک اللہ کے سِوا جن کی


 

 



$footer_html