Book Name:Narmi Kaesay Paida Karen?
والی تھی مگرچونکہ وہ ایک سمجھدار مُبلِّغ تھے ،لہٰذا نہایت نرمی کے ساتھ فرمانے لگے:میں بھی اپنے ربِّ کریم کاکتّا ہوں، اگر وفاداری سے اسے خوش کرنے میں کامیاب ہوجاؤں تو میں اچّھا ورنہ آپ کے کُتّے کی دُم ہی مجھ سے اچّھی۔ چُونکہ وہ ایک باعمل مُبَلِّغ تھے، غیبت وچُغلی،عیب کھولنے،بُرا کلام کرنےاورفُضول گفتگو وغیرہ سے دُور رہتے ہوئے اپنی زَبان ذِکرُ اللہ سے ہمیشہ تَر رکھتے تھے،لہٰذا ان کی زَبان سے نکلے ہوئے میٹھے بول تا ثیر کا تِیر بن کر تگودار کے دل میں لگے،جب اس نے اپنے زہریلے کانٹےکے جواب میں اس باعمل مُبلِّغ کی طرف سے خوشبودار جواب پایا توپانی پانی ہوگیااور نرمی سے بولا:آپ میرے مہمان ہیں،میرے ہی یہاں ٹھہرئیے۔چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اُس کے پاس ٹھہر گئے۔تگودارروزانہ رات آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضِر ہوتا،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نہایت ہی شفقت کے ساتھ اسے نیکی کی دعوت پیش کرتے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی اِنفِرادی کوشش نے تگودار کے دل میں انقِلاب پیدا کردیا! وُہی تگودار جو کل تک اسلام کو مٹانے کا ارادہ کئے ہوئے تھا، آج اسلام کا چاہنے والا بن چکا تھا۔اسی باعمل مُبلِّغ کے ہاتھوں تگودار اپنی پوری تاتاری قوم سمیت مسلمان ہوگیا۔ اس کااسلامی نام احمد رکھاگیا۔تاریخ گواہ ہے کہ ایک مُبَلِّغکےمیٹھےبول کی بَرَکت سےتاتاری حکومت اسلامی حکومت سےبدل گئی۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص ۱۵۵)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمّد
اے عاشقانِ اولیا!آپ نےسنا کہ ہمارے بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن سامنے والے کے کڑوے انداز اورسخت جملے سُن کر بھی کبھی غُصّے میں نہ آتے بلکہ صبر و برداشت سے کام لیتے ہوئےاچھےاخلاق کا مظاہرہ فرماتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ان کی باتیں سامنے والے کے دل میں اُتر جاتی