Book Name:تَوَجُّہ اِلَی اللہ

کو2وقت کا  پیٹ بھرکر  کھانا کھلائے۔ ([1])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

پیارے اسلامی بھائیو!  اس اِیمان اَفروز، سبق آموز قرآنی واقعہ میں غور فرمائیے! ہم ذرا تَصَوُّر باندھیں؛ حضرت خولہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اس وقت کتنے درد اور تکلیف میں تھیں، ماں باپ وفات پا چکے ہیں، اپنی عمر زیادہ ہو چکی ہے، بچے چھوٹے ہیں، اس حالت میں شوہَر سے جُدائی کا معاملہ ہو گیا، اس لمحے غم کا کیسا سمندر ان کے دِل میں اُمنڈ رہا ہو گا، اس کیفیت میں جب انہوں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں دُعا کی تو ان کی ایک دردناک آہ کی برکت سے قیامت تک کے لئے مسلمانوں پر آسانی کر دی گئی، ظِہار جس کا حکم طلاق والا تھا، اس میں تخفیف کر دی گئی۔ معلوم ہوا؛ ایک دَرْد بھری آہ وہ کام کر جاتی ہے جو کسی اور ذریعے سے نہیں ہو سکتا۔

اِبْتِہَال کسے کہتے ہیں...؟

ہمارے ہاں بعض لوگ شکوہ کر رہے ہوتے ہیں کہ بڑی دُعائیں مانگیں مگر قبول نہ ہوئی، اَوَّل تو یہ یاد رکھئے کہ ہر دُعا قبول ہی قبول ہی قبول ہے،البتہ یہ ضروری نہیں کہ جو ہم نے مانگا،ہمیں وہی ملے، بعض دفعہ ہماری دُعا کی برکت سے ہم سے مصیبت دُور کر دی جاتی ہے، کبھی ہم نے جو مانگا اس سے اَفْضل و بہتر چیز ہمیں عطا کر دی جاتی ہے اور کبھی وہ دُعا ہمارے لئے آخرت میں محفوظ کر لی جاتی ہے۔ غَرض؛ہر دُعا قبول ہی ہوتی ہے۔

پھر ہمیں یہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم دُعا مانگتے کیسے ہیں؟ ہمارے مُعَاشرے میں ایک تعداد اُن لوگوں کی ہے جنہیں دُعا بھی مانگنی نہیں آتی، دُعا کے آداب


 

 



[1]... فتاوی رضویہ، جلد:13،صفحہ:269 ملتقطاً ۔