$header_html

Book Name:Imam Jafar Sadiq Ki Betay Ko Nasihat

باپ کا بُڑھاپا انسان کو امتِحان میں ڈال دیتاہے ،   جس کی وجہ سے عُمُوماً اولاد بیزار ہوجاتی ہے ۔ مگر یاد رکھیے!ایسے حالات میں بھی ماں باپ کی خدمت لازِمی ہے۔ بچپن میں ماں بھی تو بچّے کی گندَگی برداشت کرتی ہے۔بُڑھاپے اور بیماریوں کے باعث ماں باپ کے اندرخواہ کتناہی چِڑچِڑاپن آجائے، بِلا وجہ لڑیں، چاہے کتنا ہی جھگڑیں اور پریشان کریں،صَبْر، صَبْر اورصَبْرہی کرنا اور ان کی تعظیم بجا لاناضَروری ہے۔اُن سے بدتمیزی کرنا، ان کو جھاڑنا وغیرہ تو دَرکَنار اُن کے آگے ”اُف“تک نہیں کرنا ہے ،ورنہ بازی ہاتھ سے نکل سکتی اور دونوں جہانوں کی تباہی مقدَّر بن سکتی ہے کہ والِدَین کا دِل دُکھانے والا اِس دُنیا میں بھی ذَلیل وخوار ہوتاہے اورآخِرت میں بھی عذابِ نار کا حقدار ہے ۔اللہ پاک پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل، آیت نمبر23 میں والدین کا ادب سکھاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا ۱۵،بنی اسر ا ئیل :۲۳)

ترجمۂ کنزُ ا لعرفان :تواُن سےاُف تکنہ کہنا اور اُنھیں نہ جِھڑکنا۔

 پیارے اسلامی بھائیو! غور کیجئے جب والدین کے سامنے اُف تک کرنے سے منع ہے تو ان کے سامنے زبان چلانا، چیخنا چنگھاڑنا کتنی محرومی کی بات ہے۔ ابھی جو آیت ہم نے سُنی اس کے تحت حضرت علامہ مفتی نعیمُ الدِّین مُرادآبادی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: (والدین کے سامنے) کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ اُن کی طرف سے طبیعت پرکچھ گِرانی(بوجھ) ہے۔نہ اُنہیں جِھڑکنا نہ تیز آواز سے بات کرنا بلکہ کمالِ حُسْنِ اَدب(نہایت اچھے ادب)کے ساتھ ماں باپ سے اِس طرح کلام کر جیسے غُلام و خادِم(اپنے)آقا سے کرتا ہے۔اُن سے نَرمی و تَواضُع سے پیش آ ، اور اُن


 

 



$footer_html