Book Name:Ghous e Pak Kay Iman Afroz Bayanaat

میں نے روزہ رکھا تھا۔

آپ کے بس انہی الفاظ میں ایسی کمال تاثیر تھی کہ پُورے مجمعے پر رِقَّت طاری ہو گئی ، عجیب رُوحانی کیفیت چھا گئی ، میں بڑا حیران تھا ، میں نے بڑی بڑی تحقیقات پیش کیں ، لوگوں پر ان کا کوئی اَثَر نہ ہوا ، والِد صاحِب نے بَس اتنا ہی کہا کہ میں نے کل روزہ رکھا تھا اور محفل کا رنگ ہی بدل گیا ، آخِر اس میں راز کیا ہے؟ فرماتے ہیں : والِدِ محترم نے میری حیرانی دُور کرتے ہوئے فرمایا : بیٹا ! تم اپنی طرف سے تقریر کر رہے تھے ، تم اپنے مافِی الضمیر بیان کر رہے تھے مگر میں اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ وَ عِزَّۃِ الْعَزِیْزِ مَا تَکَلَّمْتُ حَتّیٰ قِیْلَ لِیْ بِحَقِّی عَلَیْکَ تَکَلَّمْ یُسْمَعُ مِنْکَ اللہ رَبُّ العِزّت کی قسم ! میں اپنی مرضِی سے کچھ نہیں بولتا یہاں تک کہ مجھ سے کہا جاتا ہے : اے عبد القادِر ! تم پر ہمارا جو حق ہے ، اس حق کی وجہ سے کلام کرو ! تمہاری بات سُنی جائے گی۔ ( [1] )

سُبْحٰنَ اللہ ! پیارے اسلامی بھائیو ! کیا شان ہے غوثِ پاک رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی... ! ! آپ کے بیان میں کتنا اِخْلاص اور کتنی لِلّٰہیت تھی ، ایک طرف بڑی بڑی علمی تحقیقات بیان ہو رہی ہیں ، کمال کے علمی نکات بیان کئے جا رہے ہیں مگر مجمع پر نہ رِقَّت طاری ہوتی ہے ، نہ محفل کا رنگ بدلتا ہے ، حُضُور غوثِ پاک رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ صِرْف اتنا کہتے ہیں : میں نے کل روزہ رکھا تھا۔ اور مجمعے کا رنگ ہی بدل جاتا ہے ، لوگوں کے دِل پگھل جاتے ہیں ، رِقَّت طاری ہو جاتی ہے ، کیوں؟ آخر راز کیا ہے؟ راز یہی ہے کہ غوثِ پاک رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ خُود بولتے نہیں بلکہ اللہ پاک کے حکم پر عَمَل کرتے ہیں ، اس کی رضا کے لئے بیان فرماتے ہیں ، رَبِّ کریم ! بذریعہ اِلْہام


 

 



[1]...طلوعِ غوثِ اعظم ، صفحہ : 294بتغیر قلیل ۔