Book Name:Mehfil e Milad Mustafa Ke Barakat

                             یہاں ایک سُوال ذِہن میں اُٹھتا ہے، وہ یہ کہ بات چل رہی تھی قیامت کی، ذِکْر یہ ہے کہ اَہْلِ تقویٰ کو جنّت میں انعام کیا کیا ملیں گے ؟  اس پر اللہ پاک نے مِنْ رَّبِّکَ کیوں فرمایا ؟  جنتیوں کا انعام بتانا تھا، کہہ دیا جاتا : یہ سب رحمٰن کی عطا ہے، یہ رَبُّ العالمین کی طرف سے جزا ہے، رَبِّ کائنات کی بہت ساری صِفَات ہیں، ان میں سے کوئی صِفَاتی نام ذِکْر کر دیا جاتا ہے، آخرمِنْ رَّبِّکَ ہی کیوں فرمایا ؟  پھر رَبّ ہی کہنا تھا تو رَبُّ العالمین بھی کہا جا سکتا تھا، مِنْ رَّبِّکَ  ( یعنی اے محبوب !  تمہارے رَبّ کی طرف سے )  ہی کیوں ارشاد فرمایا ؟  

حضرت عَلّامہ محمود آلوسی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے اس کا جواب دیا، فرماتے ہیں : لِتَشْرِیْفِہٖ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم یعنی اس مقام پر  ( جبکہ ذِکْر قیامت کا تھا، اَہْلِ تقویٰ کو جنت میں ملنے والے  انعام بیان ہو رہے تھے )  رَبِّ کریم نے مِنْ رَّبِّکَ فرما کر اپنے محبوب صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کا شَرْف و فضل بیان فرمایا ہے۔ ( [1] )   

گویا اس میں کُفّار کو بتایا  جا رہا ہے کہ اے کافِرو !  تمہارے یہ جھوٹے خُدا تمہیں کچھ نہ دے سکیں گے، جہنّم سے بچانا اور جنّت عطا فرمانااسی سچّے خُدا کی عنایت ہے جس کے حُضُور محمد مصطفےٰ صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم سجدہ کرتے ہیں، لہٰذا

آج لے اُن کی پناہ، آج مدد مانگ اُن سے پِھر نہ مانیں گے قِیامت میں اگر مان گیا

 سُبْحٰنَ اللہ !  غور فرمائیے !  بات تھی قیامت کی، ذِکْر تھا اَہْلِ جنّت کی نعمتوں کا، اللہ پاک نے مِنْ رَّبِّکَ فرما کر اَہْلِ جنّت پر ہونے والی اپنی عطاؤں کا ذِکْر بھی کر دیا اور محبوب صلی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی فضیلت بھی بیان فرما دی، اس طرح کی سینکڑوں مثالیں قرآنِ کریم میں موجود ہیں، ان سب سے پتا چلتا ہے کہ بات بات پر ذِکْر ِ مصطفےٰ کرنا قرآنِ کریم کا اُسْلُوب


 

 



[1]...تفسیر روح المعانی،پارہ : 30 ،سورۂ نبا،تحت الآیۃ : 36 ، جز : 30 ،جلد : 15، صفحہ : 305۔