Faizan e Safar ul Muzaffar

Book Name:Faizan e Safar ul Muzaffar

بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے  ! اپنے کام کے لئے جاتے ہیں۔ اب سُوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرزِ عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ ( شرعی طور پر بُرا )  تو نہیں؟اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے جواب دیا : شریعت مُطَہّرہمیں اس کی کچھ اَصل نہیں  ، لوگوں کا وَہْم سامنے آتاہے۔ شریعت میں حکم ہے : اِذَاتَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْا یعنی جب کوئی شُگُونِ بَد  ( بُراشگون )  ، گمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔  مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہیئے کہ ا َللّٰہُمَّ لَاطَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ ، وَلَاخَیْرَ اِلَّاخَیْرُکَ ، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ ( یعنی اللہ پاک ! نہیں ہے کوئی بُرائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہےکوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ) پڑھ لے اور اپنے رَبّ ( کریم ) پر بھروسا کرکے اپنے کام کو چلا جائے ، ہر گز نہ رُکے  ، نہ واپس آئے۔  ( [1] )  

اَلْحَمْدُلِلّٰہ ! اس مُعاملے میں ہمارے بزرگانِ دِین کی زندگی ہمارے لئے پیروی کے لائق ہے۔ یہ حضرات کسی مخصوص شخص ، جگہ ، وقت یا چیز کو اپنے لئے منحوس خیال کرکے بدشگونی لینے یا ستاروں کے زائچوں پر یقین رکھنے کے بجائے رَبِّ کریم کی ذات پر کامل یقین رکھتے تھے۔ آئیے ! اس ضمن  میں2ایمان افروز حکایات سنتے ہیں ،  چنانچہ

سفر سے نہ رُکے

مسلمان کے چوتھے خلیفہ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے جب خارجیوں  سے جنگ کے لئے سفر کا اِرادہ کیا تو ایک نجومی ( Astrologer ) رُکاوٹ بنااور کہنے لگا : اے اَمِیْر الْمُؤمِنِیْن ! آپ تشریف نہ لے جائیے ، حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا : اس وَقْت چاند عَقْرَبْ ( آسمان کے بُرجوں  میں  سے ایک بُرج ) میں ہے۔ اگر آپ اس وَقْت


 

 



[1]...فتاوٰی رضویہ ، جلد : 29 ، صفحہ : 641۔