Book Name:Faizan e Safar ul Muzaffar
پاک نے اُس سے پوچھا : تُو نے اس عبادت گزارشخص کو روٹیاں دینی کیوں بند کر دیں؟ اُس نے عرض کی : اے مالِک و مولا ! تجھے خوب معلوم ہے۔ پھر پوچھا : اے بندے ! وہ روٹیاں تُو کسے دیتا تھا؟ اس بندے نے عرض کی : میں تو تجھے ( یعنی تیری ہی راہ میں دیتا تھا ) ارشاد ہوا : تُو اپنا عمل جاری رکھ ، میری طرف سے تیرے لئے اِس کے بدلے میں جنّت ہے۔ ( [1] )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد
پیارے اسلامی بھائیو ! سنا آپ نے ! جو بندہ اللہ پاک کی ذات پر بھروسا کرتا ہے تو اس کے لئے غیب سے رِزْق کا انتظام ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بدشگونی سے بچتے ہوئے اللہ پاک کی ذات پر کامل بھروسا کرنا چاہئے۔ افسوس ! جیسے جیسے ہم زمانَۂ رسالت سے دُور ہوتے جارہے ہیں ، ہمارا معاشرہ دن بہ دن بُرائیوں کی گہری کھائی میں گِرتا چلاجارہا ہے ، بدشگونی کو ہی لے لیجئے کہ جس نے معاشرے کے ہر طبقے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بظاہِر عقلمند نظر آنے والے لوگوں کے دامن کو بھی اسی منحوس بدشگونی نے داغ دار کرکے رکھا ہوا ہے۔ اب تو یہ ایک عالَمی بیماری بن چکی ہے ، مختلف ممالک میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں سے ایسی ایسی بَدشگونیا ں لیتے ہیں کہ انسان سُن کر حیران رہ جاتا ہے ، چنانچہ
مکتبۃُ المدینہ کی کتاببَدْشُگُوْنیکے صفحہ نمبر 16 پر لکھا ہے : * کبھی اندھے ، لنگڑے ، ایک آنکھ والے اور معذور لوگوں سے * تو کبھی کسی خاص پرندے یا جانور کو دیکھ کر یا اس کی آواز کو سُن کر بَدشگونی کا شکا ر ہوجاتے ہیں * کبھی کسی وَقْت یا دن یا مہینے سے بَدفالی لیتے ہیں