Book Name:Faizan e Safar ul Muzaffar
ذہن بنا ہوتا ہے کہ ماہِ صفر میں جو آفات و بلائیں اُترتی ہیں ان کاموں کو کرنےسے یہ بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ یادرہے ! مصیبتیں و آزمائشیں اللہ پاک کی طرف سے آتی ہیں ، ان کیلئے کوئی دن یا مہینا مخصوص نہیں ، جس کے حق میں جو آزمائش لکھی جاچکی ہے وہ اسے پہنچ کر رہتی ہے ، اب چاہے صفر کا مہینا ہو یا سال کے دیگر مہینے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن خوانی یا نیازیا فاتحہ کرنا ایک مستحب کام ہے اور ہر طرح کے رزقِ حلال پر ہر ماہ کی کسی بھی تاریخ کوکسی بھی وقت دلوائی جاسکتی ہے لیکن صرف وہم کی بنا پر یہ سمجھ لینا کہ اگر تیرہ تیزی کی فاتحہ نہ دلائی گئی اور چنےاُبال کرتقسیم نہ کئے گئے تو گھر کے کمانے والے افراد کا روزگار متاثر ہوگا یا گھر والے کسی مصیبت کا شکار ہو جائیں گے ، یہ نظریہ بے بنیاد اور بدشگونی پر دلالت کرتاہے۔
ماہِ صَفَرُالْمُظَفَّر کے آخری بدھ کو منحوس سمجھتے ہوئے کئی انداز اختیار کئے جاتے ہیں ، مثلاً اس دن لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں * سیر و تفریح ( Entertainment ) و شکار کو جاتے ہیں * پوریاں پکتی ہیں * نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے اس روز غسلِ صِحَّت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لئےتشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں ، بلکہ ان دنوں میں حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کا مرض شِدَّت کے ساتھ تھا ، وہ باتیں خلافِ واقع ( جھوٹی ) ہیں * بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں۔ ( [1] )