Book Name:Faizan e Safar ul Muzaffar
میں نے آپ کے حالات سُنے ہیں اس لئے مجھ پر لازِم ہے کہ آپ کی ضروریات پوری کروں۔ اگر آپ ایک یا دو ماہ تک ہمارے یہاں ٹھہریں تو آپ کی ضروریات پوری کی جائیں گی ، اگر آپ یہاں سے جانا چاہتے ہیں تویہ30 دِینار ہیں ، انہیں اپنی ضَروریات پر خَرچ کر لیجئے اور تشریف لے جائیے ہم آپ کی مجبوری سمجھتے ہیں۔
اس شخص کا بیان ہے کہ اس سے پہلے میں کبھی30 دِینار کا مالک نہیں ہوا تھا اور مجھ پر یہ بات بھی ظاہِر ہوگئی کہ بَدشُگُونی کی کوئی حقیقت نہیں۔ ( [1] )
حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ لکھتے ہیں : اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے ، بدفالی بدشگونی لینا حرام ہے۔ ( [2] )
کریں نہ تنگ خیالاتِ بد کبھی ، کردے شعور و فکر کو پاکیزگی عطا یاربّ ( [3] )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد
پیارے اسلامی بھائیو ! بیان کردہ حکایت سے پتہ چلا ! بدشُگُونی کا حقیقت سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ شخص دورانِ سفر اپنے ذِہن کے مُطابق بد شگونیوں کا شکار ہوا اور یہ سوچنے لگا کہ اب سفر ختم کر کے واپس جانے میں ہی عافیت ہے۔ کیونکہ اس کے خیال کے مطابق اتنی ساری بد فالیوں ( یعنی بدشگونیوں ) کے بعد اس کی حاجت کا پورا ہو نا ممکن نہ تھا ، چونکہ سفر کرنا بھی ضروری تھالہٰذا اس نے سفر ختم نہ کیا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اسے اتنی رقم مل گئی جو اس سے پہلے اس نے کبھی دیکھی بھی نہیں تھی اور نہ ہی اسے اس کی توقع تھی۔