Book Name:Surah-e-Al Qaria

اے عاشقانِ رسول ! یہ ہے : قارِعَہ...! یہ ہے : کڑک! یہ ہے وہ دِل دَہلا دینے والی۔ جس سے دِل دَہَلْ جائیں گے ، کلیجہ مُنہ کو آئے گا ، بدحواسی طارِی ہو گی ، یہاں تک کہ مائیں اپنے دُودھ پیتے بچوں کو بُھول جائیں گی۔ یہ وہ زلزلہ ہے کہ ایسا زلزلہ کبھی کسی نے نہیں دیکھا ، یہ وہ کڑ ک ہے کہ ایسی کڑک کبھی کسی نے نہ سُنی ، یہ وہ خوفناک تباہی ہے کہ ایسی تباہی کا پُوری طرح تَصَوُّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لئے اللہ پاک نے فرمایا :

وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَةُؕ(۳)  (پارہ30 ، سورۃالقارعۃ : 3)                

ترجمہ : اور تجھے کیا معلوم کہ وہ دل دہلا دینے والی کیا ہے؟

 سورہ قارِعَہ ، آیت : 4 اور 5 کی وَضاحت

سورۂ قارِعَہ کی آیت : 4 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

یَوْمَ یَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِۙ(۴)

ترجمہ : جس دن آدمی پھیلے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔

چھوٹے چھوٹے اُڑنے والے کیڑے جو عموماً برسات کے موسم میں نکلتے ہیں اور روشنی مثلاً بلب وغیرہ کے اِرْد گِرْد جمع ہو جاتے ہیں یعنی پتنگے یا پروانے ، انہیں عربی میں فَرَاشٌ کہا جاتا ہے۔ آیتِ کریمہ کا معنی یہ ہے کہ جس طرح پروانے شمع پر یا بلب وغیرہ پر گرتے وقت بکھرے ہوئے ہوتے ہیں ، ان کی کوئی سَمْت نہیں ہوتی ، کوئی کسی طرف جا رہا ہو تا ہے ، کوئی کسی طرف جا رہا ہو تا ہے ، قیامت کے دِن لوگوں کا یہی حال ہو گا ، جب قبروں سے اُٹھایا جائے گا ، تو لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے ، بدحواسی میں کوئی کسی طرف رُخ کر رہا ہو گا ، کوئی کسی طرف رُخ کر رہا ہو گا۔([1])


 

 



[1]...تفسیر صراط الجنان ، پارہ : 30 ، سورۃ القارِعہ ، جلد : 10 ، صفحہ : 803۔