Book Name:Ala Hazrat Ka Andaz e Safar

باندھے اور سَیْر وتفریح کے لئے جو سَفَر کیا جائے اس میں یہ تَصَوُّر بندھنا دُشْوار ہے ، اگر یہ تَصَوُّر بندھ جائے تو بندہ فضولیات کا ارادہ ہی کیسے کر سکتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اَوْلیائے کرام صِرْف عِبْرت ونصیحت کے لئے ، اپنی اِصْلاح کے لئے ، عِلْمِ دین سیکھنے کے لئے اور اللہ پاک کی مَعْرِفت حاصِل کرنے کے لئے سَفَر کرتے ہیں اور محض سیر وتفریح پر مبنی سَفَرکے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا تو بہت دُور کی بات ، 2  قدم چلنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

حضرت رابعہ بصریہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہَاکے متعلق منقول ہے کہ ایک بار بارِش ہوئی ، موسَم بہت سُہانا ہو گیا ، بارِش کے بعد نیلا آسمان نکھر گیا اور اس پر رنگ برنگی دَھْنَک بَن گئی ، حضرت رابعہ بصریہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِا اس وقت گوشۂ تنہائی میں تشریف فرما ، ذِکْرِ الٰہی میں مَصْرُوف تھیں ، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِاکی کنیز نے باہَر سے آواز دی : مُحْتَرمہ! باہَر تشریف لائیے! دیکھئے کیسا حَسِیْن منظر ہے۔ حضرت رابعہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِا نے اندر ہی سے ارشاد فرمایا : میرا مقصود صنعت(یعنی مخلوق) کو دیکھنا نہیں ، صانع(خالق یعنی بنانے والے) کا نظارہ کرنا ہے ، تم بھی تنہائی میں آؤ اور صانع کا مشاہدہ کرلو (یعنی تنہائی میں آکر اللہ پاک کا ذِکْر کرو اور اپنا دِل اس کے نور سے منور کرو)۔ ([1])

چوتھی سَنِ ہجری کے بُزُرگ حضرت ابو نصر عبد اللہ طُوسِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے پیر صاحِب کا فرمان نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : صُوفیائے کرام کے آداب میں یہ بات شامِل نہیں کہ صِرْف گھومنے پھرنے ، شہروں کو دیکھنے اور روزی کی تلاش کے لئے سَفَر کیا کریں ، صُوفیائے کرام تو حج کے لئے سَفَر کرتے ہیں ، مشائِخ (یعنی اَوْلیائے کرام و عُلَمائے کرام)


 

 



[1]...تذکرۃ الاولیاء ، ذکر رابعہ بصریہ ، جلد : 1 ، صفحہ : 72۔